امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ آدمی کی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے، خواہ اس کا تعلق اس کی شخصیت سے ہو یا اس کی ذات سے، دین و دنیا سے ہو یا مال و اولاد سے، ماں باپ سے ہو یا زوجہ و خادمہ سے، حرکات و سکنات سے ہو یا خوشی و غمی سے، گفت گُو سے ہو یا اشارہ و کنایہ سے غیبت ہی شمار ہوگی۔ اسی کا نام غیبت ہے۔
غیبت ایک ایسا مرض ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد شعوری اور غیر شعوری طور پر اس میں ملوث نظر آتی ہے۔ بہ ظاہر خُوش نما نظر آنے والے گناہوں کے اس سراب میں کھو کر صراط مستقیم سے لوگ ایسے دُور ہٹتے ہیں کہ پھر گناہ و ثواب اور جزا و سزا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اور جب کوئی غیبت میں مبتلا حضرات کو اﷲ کا خوف دلا کر اس سے منع کرتا ہے تو چالاکی و عیاری کے پردے میں چُھپا ہوا معصومیت بھرا ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ لو بھائی! اس میں کون سی غیبت والی بات ہے، یہ عیب اس میں موجود تو ہے۔ جب کہ اسی کا نام غیبت ہے۔
غیبت کے عظیم خطرات کے پیش نظر علماء نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے ، اگر وہ اس سے توبہ نہیں کرتا۔ ابن حجر الہیثمی کہتے ہیں کہ بہت سارے صحیح اور واضح دلائل اس کے بڑا گناہ ہونے کی دلیل ہیں۔ لیکن اس کے مفاسد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اس کے بڑا اور چھوٹا ہونے میں اختلاف ہے اور رسول کریم ﷺ نے اسے مال غصب کرنے اور کسی کو قتل کرنے کی قبیل میں شمار کیا ہے جو بالاجماع کبیرہ گناہ ہیں کہ آپؐ کا فرمان ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت حرام ہے۔
معلم انسانیت ﷺ نے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے تو انہوں نے کہا اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا اپنے مسلمان بھائی کے متعلق ایسی بات ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے۔
تو صحابہؓ نے کہا: اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جو میں ذکر کرتا ہوں۔ تو آپؐ نے فرمایا: اگر اس میں موجود بات کو تُو کرے گا تو تُونے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں موجود نہیں ہے تو تُونے اس پر الزام لگایا۔ (رواہ مسلم )
رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے۔ یعنی لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔ غیبت کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ جو لوگ غیبت کے عادی ہوگئے ہیں انہوں نے اپنی عزت و اخلاق کو کھو دیا ہے کیوں کہ یہ لوگ عیوب کو اور رازوں کو ظاہر کرکے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ خود بھی اخلاق کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتے اور عزت کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔
غیبت بزرگ ترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کے پاک وصاف خصائل کو بہت جلد کم زور کر دیتی ہے۔ بل کہ یہ غیبت خود غیبت کرنے والے کے دل میں فضیلتوں کی رگوں کو جلا دیتی اور ناپید کر دیتی ہے۔ غیبت نے معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی کو بڑھا دیا ہے۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ہوئی ہے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ہے، اس کی شہرت کو داغ دار بنا دیا ہے اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ہے جو بھرنے والا نہیں ہے۔
آج غیبت کا بازار ہر جگہ گرم ہے اور اس نے ہر طبقے کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ہے۔ پیار، بھائی چارہ اور اخوت ختم ہوچکی ہے، سلام کا جواب دینا تو دُور کی بات سلام کرنا مُشکل ہوچکا ہے، ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھنے میں بھی غیبت ہی کارِ فرما ہے۔ اسی کی وجہ سے آپس کا اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ غیبت ایک عملی بیماری ہے مگر اس کا تعلق انسان کی روح سے ہے اور یہ ایک خطرناک روحانی بحران کی علامت و نشانی ہے۔ غیبت کے اسباب میں اہم ترین حسد، غصہ، خود خواہی اور بدگمانی ہیں۔ ان اسباب کی وجہ سے انسان غیبت کی محفل کو سجاتا ہے اور اپنے من کو لطف پہنچانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کو اپنے اندر تین اوصاف و خوبیاں رکھنا چاہییں۔ اگر آپ اپنے بھائی کو نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دیں ۔ اگر اسے خوشی نہیں دے سکتے تو مغموم بھی نہ کریں ۔ اگر اس کی تعریف نہیں کر سکتے تو مذمت بھی نہ کریں ۔
آج ہماری اکثریت ان اوصاف سے محروم نظر آتی ہے، جن اوصاف سے متصف ہونا چاہیے وہ تو کہیں نظر نہیں آتے مگر دوسرے بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ جہاں پر غیبت کی محفل سجتی ہے وہاں لوگوں کی کثیر تعداد دکھائی دیتی ہے اور جہاں اصلاحی مجالس ہوں وہاں سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے۔ یاد رکھیے! یہ ہمارے وجود میں ایمان کی کم زوری ہے، ہمیں اپنی محافل و مجالس میں غیبت سے بچنا چاہیے اور اگر کوئی کر رہا ہو تو اسے سمجھانا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائیوں و بہنوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں بھی اجر و ثواب ہے۔