حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کے جو کوئی بسم الله شریف کا ورد ہر روز بکثرت کرے انیس ١٩ فرشتوں کے عذاب سے نجات پاے گا جو کے دوزخ پی مؤکل ہیں ق کے بسم الله شریف کے الفاظ بھی انیس ١٩ ہیں جب کوئی مشکل در پیش ہو تو بسم الله شریف کو با طہارت کامل سات سو چھیاسی ٧٨٦ بار سات ٧ روز تک پڑھے ہر مشکل آسان ہو اگر ہمیشہ ورد میں رکھے تو کسی اور عمل کی ضرورت ہی پیش نا آے اور اگر بعد نماز فجر پندرہ سو ١٥٠٠ مرتبہ جس مطلب کے لئے پڑھا جائے وہ کام ہو ہم چار دوستوں کا ایک گروپ تھا، نہیں بلکہ پانچ دوستوں کا، پہلے چار اسلئے کہا تھا کہ ہم چار دوست پارٹیاں اور ہلہ گلہ وغیرہ کرتے تھے لیکن پانچواں عظمت خان تھا جو کہ اکثر پارٹیوں میں شریک نہیں ہوتا تھا۔۔ اسے ہلہ گلہ اور خرچہ کرنا اچھا نہیں لگتا تھا شاید اسلئے کہ وہ بہت کنجوس تھا۔ ہم اس کو بہت طعنے بھی دیتے تھے۔
لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی بندہ دل کا اچھا تھا اسلئے ہمارے گروپ میں کسی نا کسی کھاتے میں شامل تھا۔ وہ ایک سردیوں کی یخ بستہ رات تھی میں اور میرا دوست عظمت بائیک پر کسی کام سے صدر کےلئے روانہ ہوئے۔ بائیک میری تھی سو میں ہی چلا رہا تھا۔ابھی ہم آدھے راستے پر ہی تھے کہ ایک دم عظمت چلایا۔۔۔ ارے بائیک روکو بائیک روکو۔۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوا کہ اللہ خیر ہی کرے بحر حال میں نے بائیک روک دی۔ عظمت بائیک سے اترا اور جہاں سے ہم آرہے تھے وہاں واپس پیدل تیز تیز چلنے لگا۔ میں نے بھی بائیک ایک سائیڈ پر روک لی اور اس کے پیچھے چلا گیا۔۔۔ تھوڑی دور گیا تو ایک جگہ پر ایک سفید داڑھی والے ایک بوڑھے شخص کے پاس وہ رک گیا۔ اس کے سامنے کچھ کیلے رکھے ہوئے تھے اور تھوڑے سے سیب بھی تھے۔۔۔ جسم پر ایک پرانی سے موٹی چادر تھی اور پائوں میں پرانے اور پھٹے ہوئے جوتے تھے۔ اس ٹھنڈی رات میں شاید وہ کسی گاہک کا انتظار کررہے تھے۔ میں نے سوچا شاید عظمت میری جیب مارے گا۔۔ عظمت بابا جی کے پاس بیٹھ گئے۔
اور ان سے سارے کیلوں اور سیبوں کا ریٹ پوچھا۔۔۔ بابا جی نے اس سب کی قیمت تین سو روپے بتائی۔۔۔ عظمت نے کہا کہ بابا جی میرے ایک مجبوری ہے اور میں یہ سب چیزیں ایک ہزارمیں خریدوں گا۔۔۔ مہربانی کرکے یہ سب ایک ہزار کی دے دیں میری عزت کا سوال ہے۔۔۔ بابا جی یہ سن ہر حیرت زدہ ہوئے اور پریشان بھی ہوئے اور کیلے اور سیب دینے سے انکار کردیا۔۔۔ عظمت اس کے منت سماجت کرنے لگا کہ بابا جی میری عزت کا سوال ہے میں ایک ہزار سے کم میں یہ نہیں خرید سکتا۔۔ کچھ منت سماجت کے بعد وہ بابا جی مان گئے۔۔ تو عظمت نے جھٹ سے جیب سے ایک ہزار کا نوٹ نکالا۔۔ بابا جی نے جیب سے ٹارچ نکال کر ایک ہزار کے نوٹ کو تسلی سے دیکھا اور سارے سیب اور کیلے ایک شاپر میں ڈال دئے۔۔ عظمت نے جیسے ہی وہ کیلے اور سیب لئے تیزی سے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور بائیک کی طرف چلنے لگا۔۔ میں بہت حیرانگی سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہاتھا۔۔ میں سمجھا کہ شاید عظمت نے اس بابا جی کو جعلی نوٹ دے دیا۔۔۔ بائیک کے قریب آکر میں نے مزاق میں کہا کہ ارے لگتا ہے۔