نامور کالم نگار طارق امین اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔سیاسی نباض اور وقت کی چالوں پر نظر رکھنے والوں کے نزدیک پچھلے دنوں جب شطرنج کے کھلاڑی اور سب پر بھاری کہلوانے والی شخصیت کے فرزند ارجمند جسکی امریکن ائیرپورٹ پر اکیلے بیٹھنے کی وڈیو کافی وائرل ہوئی تھی
وہ اپنے انکل ‘‘ جنہیں انکے پاپا نے اپنے دور حکومت میں اعلی پاکستانی ایوارڈ کے ساتھ نوازا تھا ‘‘ کے ہمراہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بڑے اچھے انداز میں مذاکرات کر کے واپس آئے تو زمینی حقائق اور کچھ شواہد گواہی دیتے ہیں کہ اْنکے بارے کہیں نہ کہیں برف ضرور پگھلی اور سافٹ کارنر اْبھرا ہوا ہے جبکہ اس بارے کچھ صاحب اختیار لوگوں کے روئیے بھی اس حقیقت کی چْغلی کھا رہے ہیں۔
اس سے بڑھکر جس تیزی کے ساتھ مفاہمت کا بادشاہ کہلانے والا جنوبی پنجاب میں ‘‘جہاں پینتیس سے چالیس قومی اسمبلی کی سیٹیں پائی جاتی ہیں’’ صف آرائی میں مصروف ہو گیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اپنے سب سے بڑے مخالف کی صفوں میں بارودی سرنگیں بچھانے میں لگا ہوا ہے‘ وہ کوئی معمولی بات نہیں اور قرائن بھی یہی بتا رہے ہیں کہ کسی کی آشیرباد پر کہیں نہ کہیں کھچڑی ضرور پک رہی ہے اور ایک صفحے والی بات مختلف ابواب میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے جسکے متعلق 14 اگست اور 6 ستمبر والی سرکاری تقریبات بھی بہت کچھ بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ حقیقت سے ہٹ کر اس کتھا کہانی کو اگر ایک مفروضہ بھی مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے منظر نامے یا مفروضے میں بیرون ملک رہائش پذیر لیڈروں کی واپسی کا سکوپ یا کسی بڑے اپ سیٹ کے امکان کہاں نظرآاتے ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم کی حیثیت اگر 2007ء والے منظرنامے کی فلم کا ری پلے دیکھا جائے