لاہور ۔۔۔ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں جہاں کہا جاتا ہے کہ لگ بھگ ہر شخص ایک دوسرے کو جانتا ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات زبان زد عام ہو جاتی ہے۔
لاہور ۔۔۔ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں جہاں کہا جاتا ہے کہ لگ بھگ ہر شخص ایک دوسرے کو جانتا ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات زبان زد عام ہو جاتی ہے۔
شہر کی ہر گلی ہر زبان پر اس وقت ڈھکے چھپے یا مشتعل انداز میں ایک ہی ذکر ہے، وہ ہے یہاں حال ہی میں سامنے آنے والا چھیڑخانی کا شرمناک سکینڈل۔کچھ دن پہلے آزاد جموں کشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد کے ایک سابق اہلکار کی مبینہ طور پر مختلف خواتین کے ساتھ نازیبا تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئیں۔
ان ویڈیوز میں اہلکار کو ان خواتین کے ساتھ مبینہ طور پر نہ صرف چار دیواری بلکہ گاڑی میں بھی شرمناک عمل کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ ویڈیوز اور تصاویر میں یہ ویڈیو کال پر خود بھی برہنہ ہو کر خواتین سے بھی ایسا ہی کرنے کو کہتے دیکھا گیا۔مظفرآباد میں عوامی سطح پر ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
ملزم پر کالج کی طالبات کو پریشرائز کرنے اور ان کا استحصال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا کہ اس معاملے میں اس شخص سے ساتھ مزید لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔اس مبینہ نیٹ ورک کی شناخت اور گرفتاری کے لیے مطالبات احتجاج میں بدل گئے۔ احتجاجی مظاہروں کے بعد پولیس کو خود آگے بڑھ کر ویڈیو میں قابل شناخت ملزم کے خلاف مقدمہ درجہ کرنا پڑا۔
پولیس نے مقامی میڈیکل کالج کے ایک سابق ایڈمن افسر کے خلاف چھیڑ خانی اور پریشرائزنگ کا مقدمہ دائر کر کے اسے حراست میں لے لیا ہے۔پولیس کی مدعیت میں درج کیے جانے والے مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہملزم خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انھیں دباؤ میں لانے کی غرض سے لیپ ٹاپ اور موبائل فون میں محفوظ کرتا رہا۔
جو کہ اب سوشل میڈیا پر وائرل کر دی گئی ہیں۔پولیس کے مطابق ویڈیوز اور تصاویر میں نظر آنے والی خواتین کی شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ تصاویر کس طرح وائرل ہوئیں۔ملزم کی لڑکیوں کے ساتھ نازیبا تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد مظفرآباد شہر میں سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس کے بعد ملزم کے خلاف پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔