لاہور (اعتماد نیوز ڈیسک) نامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔زمانہ چال چل گیا اور چال بھی اُن کے ساتھ جو ہر چال کو ڈھال فراہم کرتے ہیں۔ چال بھی ایسی غضب کی کہ نہ اُگلی جائے نہ ہی نِگلی۔ چال بنانے والے کچھ ایسی حالت میں ہیں۔
کہ بقول امیر خسرو۔۔۔موہے پریت کی ریت نہ بھائی سکھی۔۔میں تو بن کے دلہن پچھتائی سکھی۔۔۔خواہشات مفادات کو جنم دیتی ہیں اور مفادات سمجھوتوں کو۔ جب تک مقاصد مشترکہ تھے صفحہ اپنی جگہ رہا، تحریر ایک سی رہی۔گذشتہ تین برسوں میں کیا نہ ہوا، صحافت ہو یا سیاست، معیشت ہو یا معاشرت، اقدار ہوں یا انداز، کسی شعبے کو، کسی پیشے کو درگزر نہیں کیا گیا۔ ایک ایک کر کے تحریر اور تقریر پر قدغنیں لگیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی اگلی دو قطاروں پر براجمان قیادت کو جیل میں بند کر دیا گیا۔
احتساب کا نعرہ تھا اور انصافی ایجنڈا۔۔۔ نیب میں مقدمات کا کیا ہوا۔۔۔ دوسرا رُخ دکھانے والے میڈیا کو ’لفافے‘، بدعنوان اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا۔ سوشل میڈیا میں تنقیدی اور مخالف آوازوں کو ڈس کریڈٹ کرنے کی مہم شروع کی گئی جو آج بھی جاری ہے۔گذشتہ ہفتے احتساب کا بیانیہ ایک آرڈیننس کی صورت دفن ہوا تو تدفین کے ساتھ ہی ایک صفحے کی عمارت تیار کرنے والے ادارے کے خلاف مہم کا خاموشی سے آغاز کر دیا گیا۔ دوسری طرف کا تحمل بھی قابل داد ہے، یہی کوشش کسی ’اور‘ سیاسی جماعت نے کی ہوتی تو اُسے ’میمو‘ اور ’ڈان لیکس‘ سے سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔آرمی چیف کی توسیع کے نوٹیفیکشن کا معاملہ تھوڑی سی جَگ ہنسائی کے بعد طے ہو گیا تھا مگر اس بار کا نوٹیفیکشن ادارے کے لیے ہی ’شرمندگی‘ کا باعث بنانے کی کوشش قرار دی گئی ہے۔حالیہ تقرری اور تبادلے کی فضا گذشتہ کئی ماہ سے بنی ہوئی تھی،
یہ طے تھا کہ تبادلہ ہو گا مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ فیصلے کے فوری بعد تنازع کھڑا ہو گیا۔ اسلام آباد کے ڈرائینگ رومز میں ’تبدیلی‘ کی افواہوں نے حقیقت کا رُوپ دھار لیا۔یہ معاملہ حل ہونا ہی ہے، ادارہ کسی طور اپنے اندر کے ڈسپلن کو نہ تو ریزہ ریزہ ہونے دے گا اور نہ ہی اپنے اندرونی معاملات اُن ہاتھوں میں دے گا جن کو خود تراشا گیا ہے۔
اب ہو گا کیا؟ کیا سابق وزرائے اعظم کی طرح ان کو ’ٹف‘ ٹائم دیا جائے گا؟ کیا کوئی اور میمو یا ڈان لیکس ہو گا؟یاد رہے موجودہ سیٹ اپ کھلاڑیوں کا ہے۔ کیا ہوا کہ پرفارم نہیں کر پائے، صادق اورامین بھی ہیں اور ’بدعنوان عناصر‘ کے خلاف جو کردار اُنھوں نے ادا کیا ہے وہ کسی اور نے نہیں کیا۔ایک صفحے کی آڑ میں جس طرح ملکی مفادات کو ذاتی حساب کتاب میں چُکتا کیا گیا ہے اس کی بھی کوئی نظیر نہیں ملتی۔کھلاڑی ہر چیز سے جائے مگر کھیل سے نہ جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امیرالمومنین جنھوں نے بنایا انھی کو خالد بن ولید کی مثالیں بھی دی جا رہی ہیں۔ بااثر حلقے اپنی ٹیم کو ریاست مدینہ کے تناظر میں مذہبی کارڈ کے لیے بھی تیار کر رہے ہیں۔ خبر رکھنے والے ہوشیار کہ آنے والے وقت میں اس کا بھرپور مظاہرہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔کھلاڑی جانتا ہے کہ آخری میچ کی آخری گیند تک لڑنا ہے۔ اس کے لیے کسی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ ملک میں تقریباً ہر چیز ہاری جا چُکی ہے اب کی بار مقابلہ ’طاقتورالیون‘ کا ’بااثر الیون‘ کے ساتھ ہے۔اثرات کس کے کس پر کس عمل سے ہوں گے یہ مرحلہ بہر حال دلچسپ ہو گا۔
نوٹ یہ معروف خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کی ذاتی تحریر ہے ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ شکریہ۔
مجھے آج تک کبھی پیار نہیں ملا۔۔۔ کون ارشد ندیم کے دل کی شہزادی؟ سب… Read More
لوگ مشہوری کے لئے انعام کا اعلان کرتے دیتے مگر۔۔۔ ارشد ندیم کے پاٹنر کے… Read More
ارشد ندیم کے سسر نے اسے کیا تحفہ دیا؟ جان کر آپ بھی حیران رہ… Read More
رواں سال مون سون کا سیزن اپنے پورے جوش کے ساتھ جا رہا ہے اور… Read More
ارشد ندیم نے اپنی ماں سے کیا وعدہ کیا تھا، ان کی والدہ نے سب… Read More
ہم سات بہن بھائی ہیں اور سارا سال گوشت نہیں کھا پاتے، عیدالاضحٰی کو ہمیں۔۔۔۔۔… Read More