اسلام آباد (اعتماد نیوز ڈیسک) آج میں نماز فجر کے بعد واک پر تھا تو مجھے سعودی عرب کے ایک نمبر سے فون آیا اور ایک خاتون نے کہا کہ انکل بشیر میں خانہ کعبہ کے بالکل سامنے بیٹھی ہوں اور آپکے لیے دعا کر رہی ہوں ۔ میں نے خوشی سے کہا بیٹا شکریہ مگر آپ ہو کون ؟ جب اس بچی نے مجھے ایک واقعہ یاد کروایا۔
تو مجھے اپنی 4 سال پرانی یاد آ گٸیں ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریٹاٸرمنٹ کے بعد میں ڈی جی کے کہنے پر انکے میں ہر منگل کو یہ کام کرنے عوامی مرکز کے آفس جاتا تھا ۔ 24 جنوری 2017 بروز منگل عوامی مرکز کراچی کے دفتر میں فرسٹ فلور پر بیٹھا میں معذوری پینشن بورڈ کے پریزیڈنٹ کی حیثیت سے معذوروں کو چیک کر رہا تھا کہ دو بچیاں نقاب لگاٸے کالے عبایوں میں میرے آفس میں داخل ہوٸیں اور کہا کہ سر ہمارے ابو معذور ہیں آپ انکی معذوری پینشن کی منظوری دے دیں ۔ میں نے کہا کہ ابو کو اندر لاٸیے تو دونوں انتہاٸی مغموم لہجے میں کہنے لگیں کہ وہ تو مکمل معذور ہیں۔
اور نیچے امتیاز اسٹور کے سامنے سڑک پر رکشے میں پڑے ہیں ۔ پلیز آپ انکو وہاں ہی دیکھ لیں ہم اٹھا کر اوپر نہیں لا سکتے ۔ میں چپ چاپ اٹھا اور انکے ساتھ باہر چل پڑا ۔ رکشے میں انسان کے روپ میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رکھا دیکھا جو سننے بولنے یا ہلنے سے بھی عاری تھا ۔ میں اللہ سے توبہ کرتا ہوا واپس آگیا ۔میں نے سیڑھیاں چڑھتے سوچا کہ معذوری پینشن تو ہو ہی جاٸیگی مگر خود بھی انکی کچھ مدد کرونگا ۔ میں نے اس کی معذوری پینشن کرکے کتابچہ پر دستخط کر دیے اور مٹھی میں لیے کچھ رقم بڑی بچی کو پیش کی ۔