ایک دولت مند سوداگر کی بیوی مر گئی

    ایک دولت مند سوداگر کی بیوی مر گئی۔ تھوڑے عرصے بعد وہ خود بھی دمّے کے مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس نے اپنی کل جائیداد اپنے جوان بیٹے کے نام کر دی۔

     

     

    Advertisement

    ہزاروں کی جائیداد پاکر پہلے تو نوجوان لڑکا اور اس کی بیوی سوداگر کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے رہے مگر چھ مہینے بعد انہیں نظر انداز کرنا شروع کر دیا جس سے علاج معالجہ بھی چھوٹ گیا اور کھانا بھی وہی ملنے لگا جو معمولی طور پر گھر میں پکتا تھا۔

     

     

    Advertisement

    ایک دن نوجوان بیٹے نے باپ سے صاف کہہ دیا کہ آپ اپنی چارپائی دروازے پر بچھا لیں تو بہتر ہو کیونکہ ہر وقت کھانستے رہنے سے بچوں میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ بیمار باپ کو صبر و شکر کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔

     

     

    Advertisement

     

    اس نے کہا مجھے کوئی عذر نہیں مگر ایک کمبل اوڑھنے کو چاہئے اس لئے کہ ابھی سردی باقی ہے۔ نوجوان نے اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا۔ دادا کو گائے والا کمبل لا کر دے دو۔ لڑکا جھٹ کمبل اٹھا لایا اور دادا سے کہا ’’لو دادا! اس میں سے آدھا تم پھاڑ لو اور آدھا مجھے دے دو۔

     

    Advertisement

     

     

    دادا نے کہا ’’بھلا آدھے کمبل سے سردی کیا جائے گی؟ باپ نے بھی بیٹے سے کہا کہ دادا کو سارا ہی کمبل دے دو جس پر چھوٹے لڑکے نے معصومیت سے جواب دیا گھر میں ایسا کمبل تو ایک ہی ہے۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    اگر سارا دادا کو دے دیا تو جب تم بوڑھے اور بیمار ہو کر دروازے پر چارپائی بچھاؤ گے تو میں تمہیں کیا دوں گا۔نوجوان باپ اپنے لڑکے کی یہ بھولی بات سن کر سہم گیا اور باپ سے معافی مانگ کر پوری اطاعت اور خدمت کرنے لگا جس سے باپ بھی خوش ہو گیا اور بیٹے کی عاقبت بھی سنور گئی،

     

    Advertisement