ماہرین صحت اور معدے کے معالجوں نے متنبہ
کیا ہیں کہ وائرل ہیپاٹائٹس پاکستان میں کرونا کے مقابلے میں زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کے وجہ سے روزانہ 300 کے قریب اموات ہوتی ہیں۔
پاکستان میں، کرونا وائرس کی طراح، لوگ ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہو رہے ہیں۔ ماہرین صحت نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق 15ملین افراد یہ انفیکشن لے کے گھوم رہے ہیں اور اسے دوسرے لوگوں میں بھی پھیلارہے ہیں۔
سینئر کنسلٹنٹ و ماہر برائے معدہ و جگر ڈاکٹر لُبنا نے ہفتہ کے روز عالمی ہیپاٹائٹس ڈے 2020 کے سلسلے میں ایک آن لائن بیداری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہیپاٹائٹس بی اور سی کو نظرانداز نہ کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
علمی ادارہ صحت کے مطابق، پانچ اور دس ملین لوگ بالترتیب ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال ہزاروں نئے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہیں۔ جس کی وجہ میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی بروقت تشخیص کے مناسب اور ضروری آلات کا نہ ہونا ہے، ناجائز طور پر جراثیم سے ناپاک طبی آلات کا استعمال اور غیر محفوظ انجیکشن کا استعمال شامل ہیں۔
ڈاکٹر لُبنا، جو کہ لیاقت نیشنل اور آغا خان دونوں اسپتالوں میں ایک مشیر ہے، نے کہا کہ ‘لاپتہ ملین کی تلاش‘ عالمی ہیپاٹائٹس ڈے 2020 کا موضوع ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تقریبا 290 ملین افراد وائرل ہیپاٹائٹس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، اور وہ اپنی اس صحت کی حالت سے نا واقف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر بغیر تشخیص والے مریضوں کو تلاش نہ کیا گیا اور اِنکا بروقت علاج نہ کیا گیا، تو لاکھوں افراد اس بیماری کا شکار رہیں گے، اور بہت سی جانیں ضائع ہوجائیں گی۔
ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر، 28جولائی کو ہم پاکستان میں لوگوں اور احکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ لاکھوں افراد کی تلاش کے لئے عملی اقدامات کریں اور شعور اُجاگر کریں، جو کہ کرونا سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
جگر کی بیماریوں کی سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر سجاد جمیل نے کہا کہ اگر لوگوں کو ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا جائے، تو لوگ اور ان کے اہلخانہ کو مہلک، خون سے ہونے والے انفیکشن سے بچایا جاسکتا ہے۔
لیاقت نیشنل اسپتال کے ایک مشیر ڈاکٹر جمیل نے کہا
کورونا وائرس کے علاوہ، پاکستان میں دیگر مواصلاتی بیماریوں، خاص طور پر ہیپاٹائٹس بی اور سی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اکثریت اپنی صحت کی صورتحال سے لاعلم ہے۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر کو صرف اس وقت اُنکے مرض کے بارے میں پتہ چلتا ہے، جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لئے پورے پاکستانی معاشرے کی اسکریننگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔