لاہور ( اعتماد ٹی وی ) روس یوکرین کے درمیان جاری عالمی تنازع کو مغرب نے خوب ہوا دی ہے ۔ یورپ و امریکہ نے یوکرین کے صدر کو کہا کہ قدم بڑھاؤ ہم تھمارے ساتھ کھڑے ہیں اب جب یوکرینی صد ر کو سب کی ضرورت ہے تو کوئی بھی عملی طور پر مدد نہیں کر رہا ۔
لاہور ( اعتماد ٹی وی ) روس یوکرین کے درمیان جاری عالمی تنازع کو مغرب نے خوب ہوا دی ہے ۔ یورپ و امریکہ نے یوکرین کے صدر کو کہا کہ قدم بڑھاؤ ہم تھمارے ساتھ کھڑے ہیں اب جب یوکرینی صد ر کو سب کی ضرورت ہے تو کوئی بھی عملی طور پر مدد نہیں کر رہا ۔
حال ہی میں یوکرینی صدر نے اپنا پیغام جاری کیا ہے کہ یوکرین کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کوئی بھی اس وقت ساتھ نہیں دے رہا لیکن میں آخری دم تک یہی رہوں گا ۔
یوکرینی صدر نے بتا یا کہ دشمن کا پہلا نشانہ میں ہوں دوسرا نشانہ میرا خاندان ہے ۔ میں اور میرا خاندان آخری سانس تک یہی رہیں گے ۔ روس کی فوج یوکرائن دارالحکومت کیف تک پہنچ گئی ہے اور یوکرینی صدر کی حکومت کو ختم کر کے اپنی مرضی کا صدر وہاں بٹھا سکتی ہے ۔ یوکرینی صدر کی یورپی یونین میں شامل ہونے کی خواہش نے یوکرین کو اس صورتحال تک پہنچایا ہے ۔
آج یوکرین کی مدد کرنے کی بجائے صدر کو صرف زبانی کلامی تسلیاں دی جارہی ہیں ۔ جب ایسے وقت میں یوکرین کو مدد کی ضرورت ہے تو یورپ ممالک روس پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہیں ۔ تاہم یوکرینی صدر نے آخری بار جوبائیڈن سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے مد د مانگی ہے لیکن کوئی کامیابی نظر نہیں آ رہی ۔
اس تمام صورتحال کے بعد یوکرینی صدر نے روس کو مذاکرات کی پیش کی ہے ۔ یوکرینی صدر کا یہ فیصلہ ملک لوگوں کی جانوں کی تحفظ کے ہے ۔ روس اس وقت پر غرور ہے کہ اور اپنی طاقت کے زور پر وہ یوکرینی صدر کو دنیا میں ناک رگڑنے پر مجبور کر دے گا ۔
اور روس کے خلاف بنائے جانے والے تمام قوانین کو ختم کیا جائے گا اور یوکرین سے آزادی حاصل کرنے والوں کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کیا جائے ۔
اس تنازع سے تمام نیٹو ممالک کو یہ پیغام دیا ہے کہ روس و یورپ ممالک سے تعلقات جتنے مرضی مضبوط کریں لیکن ان کے مخالف قدم بڑھانے والوں نے صرف زبانی دعویٰ کرنا ہے عملاً کوئی بھی ساتھ کھڑا نہیں ہوگا ۔ نہ ہی اپنی فوج اس کے لئے میدان میں اُتارے گا ۔
ایسے جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب میاں نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا تو ہر شہری یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ واپس کب آئیں گے تو انھوں نے کہا مجھے بھی لوگوں نے کہا کہ قدم بڑھاؤ ہم تھمارے ساتھ ہیں میں نے جب قدم اس جانب بڑھایا تھا تو میرے پیچھے کوئی نہیں تھا۔
تنازع جس حد تک بھی ہو لیکن اس کو اس سطح پر مشاورتی طریقہ کار سے حل کرنا چاہئے نا کہ قیمتی جانوں کے ضیاع سے اپنی مقاصد کو پورا کیا جائے ۔
اس تنازع سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ملک اپنی ساکھ اتنی مضبوط رکھنی چاہئے کہ وہ خود اپنا دفاع کر سکے ورنہ وہ اس حد تک جائے ہی نا کہ اسے کسی اور ملک کی مدد درکار ہو ۔