علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کتنے مربع زمین کے مالک تھے ؟ ایک ناقابل یقین واقعہ آپ کو دنگ کر ڈالے گا

    یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، اس میں حقائق پر اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔

     

     

    Advertisement

    لاہور میں ایک روز خواجہ عبدالرّحیم صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو پتہ چلا کہ  شاعر مشرق  حضرت علّامہ اقبال کے ایک وفادار اور چاہیتے ملازم جناب علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے عوض لائل پور میں ایک مربع زمین  کا ٹکڑا نوازا ہے۔

     

     

    Advertisement

     

    لیکن المیہ یہ ہے کہ کئی چکر لگانے خے باوجود جو نوازی گئی جگہ پر قبضہ نہیں لے سکا کیونکہ ان پر کچھ اور لوگ قابض تھے۔

     

    Advertisement

     

    اس پر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا تم علی بخش کی کچھ مدد اس معاملے میں کر سکتے ہوں ؟ میں نے اسی وقت جواب میں کہا کہ میں آج ہی انہیں موٹر کار پر بیٹھا کر وہاں لے جاؤں گا اور اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے  ہی چھوڑوں گا۔

     

    Advertisement

     

     

    ”وہ مجھے فورا “جاوید منزل” لے گئے اور وہاں موجود علی بخش سے میرا تعارف کرواتے ہوئے بولے کہ “یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ تم فوراََ ان کے ساتھ گاڑی میں چلے جاؤ۔ یہ تمہاری زمین کا قبضہ دلوا دیں گے۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    علی بخش نے جہجکتے ہوئے کہا کہ سوچیے تو سہی میں اس زمین کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے کب تک جدوجہد کرو گا ؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔ لاہور سے وہاں اس سلسلے میں جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کہتا ہو گا کہ بابا کن چکروں میں پڑ گیا ہے؟

     

     

    Advertisement

     

     

    پھر یوں ہوا کہ خواجہ صاحب کے اسرار کرنے  پر وہ  میرے ساتھ جانے کے لیے آمادہ ہوگیا ۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھا تو شاید اس نے بھی سوچا ہو کہ  دوسرے لوگوں کی طرح اب میں بھی علّامہ اقبال کی باتیں پوچھ کر اس کا سر کھاؤں گا ۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

     

    لیکن میں بھی یہ ٹھان کر بیٹھا تھا کہ میں  اس  سے حضرت علّامہ اقبال کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں پوچھوں گا۔

     

    Advertisement

     

     

    تھوڑی دیر بعد، میری توقع پوری ہو پی تئی اور کچھ دیر کی عجیب خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ کیسا آدمی ہے جو ڈاکٹر عالامہ صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    ایک جگہ سے ہم گزرے وہاں سنیما کے سامنے رش لگا ہوا تھا۔ جس پر اس نے کہا کہ مساجد کے سامنے تو کبھی ایسا رش نہیں لگتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے ۔ میرے پان خریدنے پر علی بخش نے بتایا کہ ڈاکٹر علامہ صاحب کو پان بلکل بھی پسند نہیں تھا لیکن ہاں حقہ بہت پیتے تھے۔

     

     

    Advertisement

     

    پھر ہم شیخوپورہ سے گزرے تو بخش نے خود ہی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کا ایک بہت پکا مرید یہاں رہتا ہے۔ جس نے علامہ صاحب کو دعوت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخ کباب بہت پسند تھے ۔ اس طرح انہیں آموں کا بہت شوق تھا لیکن وفات سے کوئی چھ سال پہلے جب ان کا گلا خراب ہوا تھا اس کے بعد انہوں نے کھانا پینا کم کر دیا تھا ۔

     

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    علی بخش بڑے دلچسپ اور سادہ الفاظ میں ڈاکٹر صاحب کے قصے سنا رہا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اسے اس کا نشہ ہے اور جب تک وہ یہ نشہ پورا نہیں کر لیتا اسے سکون  نہیں ملتا ۔

     

     

    Advertisement

     

     

    اس نے بتایا کہ جب ڈاکٹر علامہ اقبال کا آخری وقت آیا تو وہ ان کے پاس تھے۔ صبح اس نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اس سے آپ کی طبعیت بہتر ہو گی لیکن 5 بج خر 10 منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز نیلی سی چمک آئی اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا اور وہ اس فانی دنیا سے چل بسے۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    کچھ دیر کی خاموشی دیکھ کر میں نے اس موڈ بدلنے کی غرض سے پوچھا کہ کیا آپ کو علامہ صاحب کو کوئی شعر پسند ہے ۔ علی نے ہنس کر بات ٹالتے ہوئے کہا کہ میں تو ان پر جاہل مجھے ان باتوں کا کہا پتہ؟

     

     

    Advertisement

     

    اس نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے قریب والے کمرے میں سویا کرتے تھے، اور ڈاکٹر صاحب رات کو دبے پاؤں اٹھتے اور وضو کر کے دیر تک عبادت کرتے رہتے تھے اور پھر فارغ ہو کر وہ بستر پر لیٹ جاتے تھے۔ میں حقہ تیار کر کے رکھ لیتا تھا وہ کبھی ایک کش لگاتے اور کبھی دو لگاتے اور ان کی آنکھ لگ جاتی بس اسی طرح کروٹے بدلتے رات گزر جاتی ۔

     

    Advertisement

     

     

    اسی تناظر میں ڈرائیور علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے لیکن وہ اسے قبول نہیں کرتا۔ پھر اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی کہ رات کو کبھی کبھار انہیں جھٹکا سا لگتا تھا اور مجھے آواز دیتے تھے۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

     

    ڈاکٹر صاحب کے قریب سونے کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے بتایا کہ جب ان کو رات کو جھٹکے لگتے تو مجھے بلا کر کہتے تھے کہ ان کی گردن کے پیچھے پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں جس سے ان کو سکون ملتا۔

     

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    مزید بتایا کہ علامہ اقبال صاحب بڑے درویش آدمی تھے، انہوں نے گھر کا سارا حساب اسے دیا ہوا تھا اوہ وہ بہت کفایات شعاری سے خرچ کرتا تھا جس پر اکثر ڈاکٹر صاب ناراض ہو کر کہتے تھے انسان کو وقت کے مطابق چلنا چاہئے، فضول بھوکا نہیں رہنا چاہئے ۔

     

     

    Advertisement

     

    اس نے مزید بتایا کہ لالپور کے اعلی عہدیداران اس کی بہت عزت کرتے اور اپنی برابر کی کرسی پر بیٹھاتے ہیں یہ ساری عزت ڈاکٹر صاحب کے بدولت ہے ۔

     

    Advertisement

     

     

    علی نے بتایا کہ کے مربع کی بھاگ دوڑ میں کچھ قرضہ پر چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لئے بار بار لاہور نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ جاوید کا نقصان ہوتا ہے ۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

    پتہ چلا ہے کہ اپریل میں جاوید کچھ عرصے کے لئے باہر سے لاہور آ رہا ہے۔ جاوہد چھوٹے ہوتے پوئے میرا ساتھ پی رہتا تھا۔ اب تو وہ بڑھا ہو کر ہوشیار بھی ہو گیا ہو گا۔ جب ان کی والدہ فوت ہوئی تو وہ اور مینرہ بی بی بہت چھوٹے تھے ۔

     

     

    Advertisement

    اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لیے اشتہار دئے تھے جس پر بہت سے جواب موصول بھی ہوئے تھے ایک خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے نکاح کرنے کی بھی تجویز دی تھی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب بہت پریشان ہوئے اور کہا کہ دیکھو علی بخش اس خاتوں نے کیا لکھا ہے ۔

     

     

    Advertisement

     

     

    پھر ہم جھنگ پہنچ گئے اور علی بخش کو ایک رات اپنے پاس رکھا اور پھر اپنے نہایت شفیق مجسٹریٹ کیپٹن مہابت کے سپرد علی بخش کا کام دیا۔ اس علی بخش کو بہت ہی عقیدت سے گلے لگایا اور کہا کہ وہ آج ہی قبضہ دلوائے “لعنت ہے ہم پر اگر یہ چھوٹا سا کام نہیں کر سکتے”۔

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement

     

     

     

    Advertisement