مسلم لیگ(ق) کے حوالے سے کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا ۔ پرویز خٹک۔
مسلم لیگ(ق) کے حوالے سے کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا ۔ پرویز خٹک۔
سوشل میڈیا کے اس دور سے پہلے پہل تو لوگ ذاتی طور پر اس کو وقت گزاری کے لئے استعمال کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے دور ترقی کی جانب گامزن ہے سوشل میڈیا سائٹس کا استعمال آپسی لڑائیوں کے لئے ہونے لگا اور اب یہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ سیاست دانوں کی سیاسی لڑائی کا بہتر ین ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
آئے روز کبھی کسی کی جانب سے بیان جاری ہو تا ہے اور تو کبھی کسی دوسری جانب سے۔ ایسے مواقع سے فائدہ صحافی اُٹھاتے ہیں کچھ ایسے سنئیر صحافی ہیں جو بڑے بلندو بانگ دعوے کر تے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح کچھ روز قبل وزیر دفاع کی جانب سے مسلم لیگ ق کے حوالے سے ایک بیان منظر عا م پر آیا۔
مسلم لیگ ق کو 5 سیٹوں کے بدلے کوئی وزارت نہیں مل سکتی اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کو وزارت محض 5 سیٹوں کے بدلے ملے تو یہ سراسر نا انصافی ہے ۔
مسلم لیگ ن اگر ان کو دیتی ہے تو ان سے وزارت لے لیں پاکستان تحریک انصاف کو تو معاف رکھیں۔ اس بیان کے بعد مسلم لیگ ق و تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ۔
آج وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤ نٹ سے بذریعہ ٹوئٹ ایک پیغام جاری کیا ہے کہ ان کی جانب سے مسلم لیگ ق کے لئے جو بیان پھیلا یا جا رہا ہے وہ انھوں نے نہیں دیا۔ یہ سب اختلافات پیدا کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔
اور اس میں میرا نام استعمال کیا جا رہا ہے۔ مزید کہا کہ یہ خبر بالکل بے بنیاد ہے اور کسی نے خود سے بنائی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کا آپس میں اتحاد ہے اور اس اتحاد کو تحریک عدم اعتماد بھی ختم نہیں کر سکی۔ یہ بیان کسی کی شرارت ہے ۔ مسلم لیگ ق نے ایسے کڑے وقت میں وزیر اعظم کا ساتھ دیا ہے کہ جب اسمبلی میں ووٹوں کے لئے جو ڑ توڑ کئے جار ہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے اراکین بھی مسلم لیگ ق کے چوہدری بردارن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کے اس بیان کے بعد مسلم لیگ ق کے مونس الہٰی نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے خود سے متعلق بیان کی تردید کی اورساتھ وضاحت دیتے ہوئے مسلم لیگ ق کے لئے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف، شیخ رشید نے دعوی کیا کہ اب اگلے 24 گھنٹے میں ہر گھنٹے بعد اپوزیشن کو سرپرائز دیا جائے گا۔
جبکہ اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان اور بلاول زرداری بھی اس سے پہلے وقت کا الٹیمیٹم دے چکے ہیں ۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کی طرف سے آغاز کی جانے والی ریلی کا ابھی تک کوئی واضح مقصد نہیں آیا، اس کے برعکس ان کی ریلی کا اب نام و نشان بھی نظر نہیں آرہا ہے ۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کی سیٹوں کی تعداد پوری ہیں لیکن اس کا فیصلہ اب اسمبی حال میں ہی ہوگا۔