والدین کی خدمت سے ماخوذ ایک نصحت آمیز واقعہ
والدین کے خدمت کرنا اولا د کا اولین فریضہ ہے ، حضور کریم ﷺ نے بھی اس کی اہمیت متعدد بار بیان کی ہے ان کا بیان ہے کہ اگر میری والدہ حیات ہوتی اور میں عشاء کی نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری ما ں مجھے پکارتی تو میں نماز چھوڑ کر ماں کے پاس جاتا ۔ والدین کی بہت فضیلت ہے ۔
عالم اور مفتی بھی اپنے درس میں یہ بات دہراتے ہیں تا کہ معاشرہ بے راہ روی سے نکلے اور اپنی حقیقت کو پہچانے ۔ ایسے ہی پیر اجمل رضا قادری صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ ایک دن حضرت عمر فاروق کے دربار میں پیش ہوئے اور فرمایا کہ حضو ر میری والدہ بہت بوڑھی ہو گئی ہے ۔
اور معدہ بھی کمزور ہے جب وہ مجھے آواز دیتی ہے کہ مجھے پیشاپ کے لئے جانا ہے ۔
اور معدہ بھی کمزور ہے جب وہ مجھے آواز دیتی ہے کہ مجھے پیشاپ کے لئے جانا ہے ۔
میں دوڑ کر جاتا ہوں لیکن ابھی بیت الخلاء تک نہیں پہنچتا تو وہ پیشاپ مجھ پر کر دیتی ہے تو جب میں چھوٹا تھا تو میں اس پر پیشاپ کر دیتا تھا اس طرح حق تو ادا ہو گیا نا ماں کا۔ حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ حق ادا نہیں ہو ا۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ ابھی بھی حق ادا نہیں ہوا ۔
حضرت عمر فاروق نے فرمایا نہیں ہوا کیونکہ تیر ی ماں نے جب تیرا خیال کیا تو چھوٹا تھا اور وہ جو بھی کرتی تھی پیار میں کرتی تھی۔ تو بوڑھا سمجھ کر کرتا ہے اور دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ بوڑھی ہو گئی ہے اس کا پردہ کردے۔
کیا تیری ماں نے کبھی یہ دعا کی کہ میرے لال کو پردہ دے وہ تو کہتی تھی کہ میرے لال کو زندگی دے۔ جبکہ تم اس کے پردے کی دعائیں مانگتے ہو تو حق کیسے ادا ہوا؟
حضرت ابو ہریرہ یہ سن کر آبدیدہ ہو گئے کہ سچ کہا خلیفہ دوم نے کہ میں واقعی اللہ سے ماں کے پردے کی دعائیں مانگتا تھا اور سمجھتا تھا کہ حق ادا ہو گیا ۔ لیکن ما ں باپ کے درجات بہت بلند ہیں اولاد اس ایک پل کا قرض بھی نہیں چکا سکتی۔