لاہور (نیوز ڈسک) پاکستانی فلمی دُنیا مسلسل زوال کا شکار جارہی ہے۔ لیکن جیو انٹرٹینمنٹ کے تعاون سے بننے والے کارٹون فلم ڈونکی راجہ نے پاکستان کی فلمی دُنیا میں تاریخ رقم کر دی ہے۔
لاہور (نیوز ڈسک) پاکستانی فلمی دُنیا مسلسل زوال کا شکار جارہی ہے۔ لیکن جیو انٹرٹینمنٹ کے تعاون سے بننے والے کارٹون فلم ڈونکی راجہ نے پاکستان کی فلمی دُنیا میں تاریخ رقم کر دی ہے۔
یہ فلم 13 اکتوبر 2018 میں ریلیز ہوئ اور یہ پاکستانی مشہور فلموں میں سے ایک ہے، جسکو دس زبانوں میں ڈب کیا گیا سینما میں لگانے کے لئے۔
ستمبر 2020 میں یونیورسٹی آف لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر سکندعلی، ایم فل انگلش محترمہ عفشاہ قیوم اور جنید آکاش نے ایک ریسرچ پیپر”زبان، میڈیا اور آئیڈیولوجی: تنقیدی جائزہ برائے ڈونکی راجہ” کینیڈا کے بین الاقوامی جریدے “انٹر نیشنل جرنل اف انگلش لینگویسٹک” میں شائع کروایا ہے۔ یہ جریدہ پاکستان ہائیر ایجوکیشن کمشن سے با ضابطہ طور پر تصدیق شدہ ہے۔
تحقیقی پیپر میں فلم کے مختلف مکالموں کو انگلش میں لیا گیا اور پھر ان مکالموں کا مختلف پہلؤن اور سیاق و سباق سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
تحقیق کے ابسٹریکٹ کے مطابق، یہ پییر نارمن فائیر کلف کی تھیوری سی ڈی اے کا استعمال کرتے ہوئے خفیہ حقائق اور اور آئیڈیولوجی کی تحقیق کرتا ہے اور اس مقصد کےلئے تحقیق کنندہ نے کوالیٹیٹو طریقہ کا انتخاب کیا ہے۔
اس تحقیق کامقصد یہ ہے کہ کس طراح حقائق کو بنایا جاتا ہے، آئیڈیولوجی کو تیار کیا جاتا ہے اور کس طراح مختلف پہلوؤں کو فلم کے ذرئیعے بدلا جاتا ہے؟
اس کا ساتھ یہ تحقیق یہ بھی جاننے کی کوشش کرتی ہےکہ کس طراح عام آدمی کی سوچ کو سینیما اور فلموں کے ذریعے تبدیل کیا جاتا ہے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے۔
اس تحقیق کو سرانجام دینے کے لئے، فلم کے مختلف مندرجہ ذیل مکالموں کا استعمال کیا گیا:
جیسا کہ، بکری مارچ ہو رہی ہے۔ سبزہ کھاؤ ناکہ بکریا۔ چلو جنگل میں جمہوریت تعارف کرواتے ہے، جمہوریت درحقیقت منافقت ہے۔
بادشاہ وہ ہوتا ہے جو دلوں پر راج کرتا ہے۔ ہم انسان نہیں بننا چاہتے، کم از کم کچھ قانون تو ہے جنگل میں۔ نوجوان میری طاقت ہے، اور وہ میرے ساتھ ہے۔ صرف گدھا ہی گدھے کا گوشت کھا سکتا ہے۔
جناب، کوئی تب تک بادشاہ نہیں بن سکتا، جب تک وہ اپنے ہی لوگوں کا گوشت نا کھائے۔ جب سے اس گدھے نے چارچ لیا ہے، ہم نے کوئی ترقی نہیں کی، نا پانی ہے نا بجلی ہے اور جانور بھی غائب ہو رہے ہیں۔
مندرجہ بالا مکالموں کا تنقیدی تجزیہ کرنے کے بعد، یہ تحقیقی پیپر اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حقائق بنائے جاتے ہے اور آییڈیولوجی کو سینما اور فلموں کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے اور رائج کیا جاتا ہے۔
اس طراح کی کارٹون سے بننے والی فلم عام لوگوں کی سوچوں اور زندگیاں پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔ اس تحقیق میں ملکی حالات کے ساتھ اس فلم کو جوڑا گیا ہے اور پاکستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورت حال کو فلم کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔
اسی طراح پاکستان کے لوگوں کو تجویز دی گئی ہے کہ پاکستانی لوگوں کو پکڑ کر باہرکے ملکوں کو نہیں دینا چاہے اور جو پاکستانی لوگ غائب ہے وہ فورا رہا کیئے جائے۔ فلم کے بارے میں مزید یہ بتایا گیا کہ یہ فلم تمام عمر کے لوگوں کے لئے چاہے وہ بچہ ہو، یا بڑا ہو یا بوڑھا۔ قوم کو سکون چاہئے، ترقی چاہئے اس کے علاوہ کہ ملک کا وزیراعظم کو ئی بھی ہو۔
مندرجہ بالا حقائق ایسے ہے کہ ان سے عوام میں شعور پیدا کیا جا سکتا ہے، اور عوم الناس اپنے حقوق کے لئے ایک ہو جائے، چاہے وہ کسی بھی سیاسی، سماجی اور دینی جماعت سے ہو۔
شاید یہی وجہ ہے کہ یہ فلم آغاز سے پابندیوں کا شکار رہی ہے۔ ہائی کورٹ سے کیس جیتنے کے باوجود بھی یہ فلم سینما میں نہیں چل سکی زیادہ دیر۔