قرآن مجید فرقان حمید میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ رحمت العالمین کی رحمت کا مظہراور پیکر صرف اور صرف سرور کونین حضرت محمدمصطفٰی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ آپؐ کو اللہ نے جو شفاعت کا حق عطا کیا ہے، وہ اللہ کی رحمتوں میں سے بہت بڑی رحمت ہے۔
حدیث مشقاۃ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضورﷺ کو حق شفاعت عطا کیا گیا تو یہ حق لینے کے بعد حضوراکرمﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم سمجھتے ہو کہ یہ حق میں نے پرہیز گاروں کے لئے حاصل کیا ہے، پھر فرمایا نہیں یہ رحمت و شفاعت صرف گناہ گاروں اور خطا کاروں کے لئے ہے۔
قیامت کے دن جس طرح گناہ گار آغوش رحمت اور آغوش شفاعت میں آئیں گے اُس کا تو تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ قرآن و حدیث پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ نے اپنی رحمت ان دو چیزوں میں منحصر کر دی ہے۔
سورۃ النساء کی آیات کے مطابق ” استغفار کرنے والا کبھی بھی اللہ کی رحمت سے دور نہیں رہتا ۔”
اور”دامنِ مصطفٰیﷺ کو تھامنے والا بھی کبھی رحمت سے دور نہیں رہ سکتا۔
رحمت الہٰی کے مستحق متقی اور پرہیز گارہی نہیں بلکہ گناہ گار ، توبہ کرنے والے اور حضوراکرم ؐ سے محبت رکھنے والے بھی ہیں۔