ایتھنز میں ایک پارتھینون نامی جگہ موجود ہے جو کہ تاریخی ورثہ سمجھی جاتی ہے۔ اس جگہ ذہانت کی دیوی کا مجسمہ نسب تھا اور اس مجسمے کے سامنے ڈھلوان میں ایک شہر آباد تھا جہاں ایک سنگ تراش رہتا تھا سنگ تراش کا بیٹا یونانی دیوی کو دیکھتا اور سوچتا کہ ایک مجسمہ شہر کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟
سقراط نے اپنے باپ سے سنگ تراشی کے متعلق سوال کیا کہ کیسے ایک پتھر سے اتنی خوبصورت شکل نظر آتی ہے۔ تو اس کے باپ نے اسکو بتایا کہ سب سے پہلے جو بنانا ہو اس کو پتھر کے اندر محسوس کرنا پڑتا ہے جب محسوس ہو جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کس اوزار سے کہاں ضرب لگانی ہے کہ مجسمہ بن جائے۔
سقراط کی ماں اسکو جب دیوی دیوتاؤں کی باتیں سناتی تو وہ اس پر بھی سوال اُٹھاتا جس پر اُس کی ماں اُس کو خاموش کروا دیتی۔ لیکن اس کے سوال ختم نہ ہوئے کہ دیوی دیوتا اگر مقدس ہیں تو وہ نفرت غصہ کے جذبات کیوں رکھتے تھے۔
سقراط کے زمانے میں ایتھنز ایک مشہور شہر تھا جہاں جمہوریت کا نظام رائج تھا۔ ایتھنز کے مجسمے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ سقراط اپنی سوالیہ فطرت کے باعث لوگوں سے سوال کرتا اور ان کو لاجواب کردیتا۔ اس کام کو لوگوں نے شعبدہ سمجھ لیا اور وہ اس کو سوال کرتے تاکہ وہ اور سوال نکالے اس کے وجہ سے سقراط کی شہرت تمام دنیا میں پھیل گئی۔
یونان کے لوگوں کے مطابق ان کے دیوی دیوتا آسمان پر رہتے تھے، ایک مرتبہ مندر کی تعمیر کے دوران سقراط نے دیکھا کہ ایک سیاستدان کے ساتھ کوئی شخص آیا ہے جو کہ آسمان پر بکھرے سورج چاند اور ستاروں کا مشاہدہ کر رہا تھا یہ شخص اینکژا غورث تھا اور کہتا کہ آسمان پر کوئی دیوی دیوتا نہیں رہتے، یہ سورج چاند اور سیارے پتھر ہیں۔ چاند روشنی کے لئے سورج کا محتاج ہے۔
اس بات سے یونان کے لوگ اس کے خلاف ہو گئے اور سقراط سے اس کا جواب مانگا، کیا یہ شخص صحیح کہہ رہا ہے کہ کیا سورج کوئی دیوتا نہیں ایک دھات کا ٹکڑا ہے۔ سقراط نے کہا کہ میرے پاس اس شخص کو غلط یا صحیح قرار رینے کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس جواب سے لوگوں نے سقراط کو دیوی دیوتاؤں کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کر دی اور اینکژا غورث پر ایتھنز کی عدالت میں مقدمہ چلایا جس کی پاداش میں اُس کو زندگی ختم کرنے کی سزا دی جاتی یا شہر چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا۔
تاہم اس شخص کو شہر بدر کیا گیا اور سقراط ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں مگن ہو گیا۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سقراط نے کھلے عام اپنے خیالات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا اور ایک فلسفی کے طور پر مشہور ہو گیا دنیا بھر سے لوگ اس سے ملنے آتے اور اس سے سوالات کرتے۔
وہ اپنے خیالات کا اظہار باتوں باتوں میں کر جاتا جس کی وجہ سے لوگ اور اس کے شاگرد افلاطون اور کرائٹو اس کو ذہین ترین انسان سمجھنے لگے۔
یونان میں اپالو مندر میں اپالو دیوتا کے قدموں میں ایک پوجارن بیٹھتی تھی جو لوگوں کے سوالوں کا جواب دیتی لوگوں کے مطابق یہ جواب اپالو دیوتا پجارن کے ذریعے دیتے تھے۔ سقراط کا ایک جوشیلا شاگرد کریفن اپالو مندر چلا گیا اور وہاں جا کر سوال کیا، کیا ایتھنز میں سقراط سے زیادہ عقل ہے جواب ملا نہیں۔ کریفن خوشی سے اپنے شہر گیا اور لوگوں کو بتایا کہ دیوتا بھی کہتے ہیں سقراط سے زیادہ ذہین کوئی نہیں۔
اس جواب سے ایتھنز کے لوگ دو حصوں میں بٹ گئے ایک ماننے والے اور دوسروں کے مطابق پوجارن کو رشوت دے کر یہ بلوایا گیا ہے۔ سقراط اس کے بعد مزید مشہور ہو گیا اور اس کے پاس بہت سے لوگ مزید آ گئے انہیں میں ایک امیر بحری کمانڈر جس کا نام ایلس بائٹیز تھا۔ یہ سقراط کی ذہانت سے جیلس تھا اس نے سقراط کی شاگردی اختیار کی۔ یہ چاہتا تھا سقراط اسکی دولت اور خوبصورتی سے متاثر ہو لیکن ایسا نہ ہوا، اسی دوران ایک فوجی مشن پر ایلس بائیٹز کو روانہ کیا جہاں وہ شکست کھا گیا اور دشمن کے ساتھ مل گیا۔
اس وجہ سے لوگوں نے اُسکو غدار قرار دیا اور سقراط کو بھی اسکے استاد کی حیثیت سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سقراط کا مذاق اُڑایا جانے لگا اس کو خبیث ترین شخص دیکھایا گیا جو دیوتاؤں کے وجود سے انکار کرتا ہے اور جوانوں کو بوڑھوں سے بحث پر اکساتا ہے۔
یہ کھیل شہر کے خاص لوگ اور اثرو رسوخ والے کھیل رہے تھے۔ ایتھنز میں لوگوں کو سقراط کے جمہوری نظام پر سوال اُٹھانے پر بھی اعتراض تھا۔399 قبل از عیسوی میں کرائٹو نے سقراط کو اس پر چلنے والے مقدمے کے متعلق آگاہ کیا۔ مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ سقراط ہماری نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ ایتھنز کے شکست کو سقراط سے منسوب کیا گیا۔ تین گھنٹوں تک الزامات لگائے گئے اور پھر تین گھنٹے جواب کے لئے دئیے گئے، سقراط نے جواب دینے بجائے تمام الزامات لوگوں کو دہرا کر سنائے اور پوچھا کہ کیا عدالت میں کوئی بھی شخص ان کو سچا ثابت کر سکتا ہے۔
سقراط نے کہا کہ میں صرف زندہ رہنے کے لئے اپنے سچ کو نہیں چھوڑوں گا۔ موت سے زیادہ میرے لئے یہ ضروری ہے کہ جو میں بول رہا ہوں وہ سچ ہے یا نہیں۔ اس نے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہا اور عدالت میں اسکے حق میں کم ووٹ ہونے کی وجہ سے اسکو زندگی ختم کرنے کی سزا ہوئی اور کیونکہ اسکو اپنی زندگی ختم کرنے کا طریقہ خود منتخب کرنا تھا اس لئے اس نے کہا میں حکومت کے خرچ پر ڈنر کرنا چاہتا ہوں یعنی اسنے پیملوک پینے کا انتخاب کیا۔ جو کہ ایتھنز کا سب سے تیز ایسڈ تھا۔
سقراط کو اس سزا پر قانونی سہارا لینے کا مشورہ دیا کہ جلاوطنی قبول کر لے۔ لیکن اُس نے کہا کہ میں اگر سزا کے ڈر سے اپنے شہر سے بھاگ گیا تو کسی اور شہر جا کر سچ کیسے بولوں گا۔ اس کے شاگرد کرائیٹو نے بھاگنے کا منصوبہ بنایا جو کہ سقراط نے انکا ر کردیا۔ سزا کے دن سقراط کو بیڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا، جہاں جیلر نے اُسے ایسڈ کا پیالہ دیا۔ سقراط نے اپنے چاہنے والوں کو کہا کہ جانے والوں کو خاموشی سے دنیا سے جانا چاہیے اس لئے جب میں پیالہ پی لوں تو حوصلہ کرنا۔
سقراط کے شاگرد افلاطون کے مطابق سقراط کے ہاتھوں میں ذرا بھی لرزش نہیں تھی۔ کچھ دیر وہ ٹہلتا رہا جب پیالے کا اثر شروع ہوا تو چادر تان کر لیٹ گیاکچھ ہی دیر میں اُس کا جسم پاؤں سے بے جان ہوتا گیا جب اثر سینے تک پہنچا تو اس نے سر پر چادر ڈال لی۔ سقراط نے اپنے آخری الفاظ کہے کرائٹو ہم پر ایک مرغ کا ادھار باقی ہے وہ چکا دینا۔ اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔
مجھے آج تک کبھی پیار نہیں ملا۔۔۔ کون ارشد ندیم کے دل کی شہزادی؟ سب… Read More
لوگ مشہوری کے لئے انعام کا اعلان کرتے دیتے مگر۔۔۔ ارشد ندیم کے پاٹنر کے… Read More
ارشد ندیم کے سسر نے اسے کیا تحفہ دیا؟ جان کر آپ بھی حیران رہ… Read More
رواں سال مون سون کا سیزن اپنے پورے جوش کے ساتھ جا رہا ہے اور… Read More
ارشد ندیم نے اپنی ماں سے کیا وعدہ کیا تھا، ان کی والدہ نے سب… Read More
ہم سات بہن بھائی ہیں اور سارا سال گوشت نہیں کھا پاتے، عیدالاضحٰی کو ہمیں۔۔۔۔۔… Read More