رجب کی ستائیسویں رات کے متعلق اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس رات کی عبادت اور روزہ سے متعلق اسلام کے کیا احکامات ہیں؟
رجب کی ستائیسویں رات کے متعلق اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس رات کی عبادت اور روزہ سے متعلق اسلام کے کیا احکامات ہیں؟
تو علمائے کرام نے یہ واضع کیا ہے کہ اس رات جاگنے اور عبادت کرنے یا الگے روز رکھنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ زیادہ تر اس رات کا اہتمام پاکستان و ہندوستان کے لوگ کرتے ہیں، شب گزاری ،عبادت و ذکر اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں۔
تو اس رات کو جاگنا عبادت کرنا اگلے دن روزہ رکھنا لازم وملزوم نہ سمجھا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ اس رات عبادت کرنا شرط نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی اس رات کو جاگ کر عبادت کرے اور روزہ رکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ صحابہ کرام تو اللہ کی ذکر و اذکار کرتے تھے شب بیداری بھی کرتے روزہ کا اہتمام بھی کرتے ۔۔ لیکن یہ سب کام شرعی طور پر فرض سمجھ کر نہیں کیے جاتے تھے۔
سال میں کچھ ایسی راتیں ہیں جیسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں تو ایسی راتوں میں لوگ قیام کرتے ہیں۔ عبادات کا اہتمام کرتے ہیں جوکہ نفلی عبادات کے زمرے میں آتی ہیں۔ تو ان کا اجر و ثواب تو بہت زیادہ ہے۔
انسان اپنے اللہ کو راضی کرنے کے لئے قیام، نفلی عبادات ، فرائض سب ادا کرتا ہے لیکن یہ کام کسی پر تھوپ نہیں سکتا۔