دبئی کام نام تو سنا ہوگا، لیکن دبئی کے بارے میں یہ راز جان کر آپ حیران رہ جائینگے۔

    دبئی جو آج امیروں کی جنت کہلایا جاتا ہے اس میں پہلے کچھ بھی نہیں تھا نہ پانی اور نہ ہی یہاں زرعی رقبہ تھا۔

     

    حتیٰ کہ یہاں دریافت ہونے والے تیل کے زخائر بھی باقی عرب ریاستوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر تھے، دبئی کی زمین نئی بلڈنگیں بنانے کے لیے غیر مناسب تھی مگر ایک شخص کی دور اندیشی نے یہاں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔

    Advertisement

     

    یہاں بجلی بھی نہیں تھی دبئی کے ذہین شیخوں نے یہاں صحراؤں میں سولر پینلز لگائے اور ان کے ذریعے بجلی پیدا کر لی۔ یہاں پانی بھی نہیں تھا مگر فلٹریشن پلانٹس کے ذریعے یہاں پانی کو پینے کے قابل بنایا گیا لیکن اب دیکھا جائے تو یہاں دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال، انسان کا اپنا بنایا ہوا جزیرہ ، دنیا کا سب سے بڑا پھولوں کا باغ یہاں پایا جاتا ہے۔

     

    Advertisement

     

    دبئی میں سب سے مہنگی اونٹ کی دوڑ بھی لگوائی جاتی ہے جس کے جیتنے والے کو عربوں روپے کا انعام دیا جاتا ہے۔ اب دبئی دنیا کا سب سے پہلا ہائپر روٹ تریول سسٹم بھی بنانے جا رہا ہےجس کی رفتار بہت تیز ہوگی جو مسافروں کو ابو دھبی سے دبئی صرف بارہ منٹ تک پہنچا دے گی حتیٰ کہ اس کا فاصلہ 104 کلو میٹر دور ہے۔

     

    Advertisement

     

    یہاں چوروں کو پولیس نہیں بلکہ روبوٹس پکڑیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلائنگ کارز بھی دبئی میں بننے جا رہی ہیں جنہیں کمپیوٹرز اڑائیں گے۔ جنہیں موبائل کے ذریعے گھر بلا سکیں گے۔ دبئی اپنی ایک آب و ہوا کنٹرول سٹی بھی بنانے جا رہا ہے جس میں سب کچھ آٹو میٹک ہو گا۔ آٹو میٹک گاڑیاں، پولیس وغیرہ۔ ایک شیشے میں قید اس کا درجہ حرارت وغیرہ بھی کنٹرول کیا جا سکے گا اور نہ ہی یہاں آلودگی ہوگی۔

     

    Advertisement

     

    یہاں جرائم کی شرح بھی صفر ہے۔ کوئی بھی مسئلہ درج کروانا ہو تو موبائل کے ذریعے سے درج ہو سکتا ہے اور پولیس فوراً مسئلہ حل کرنے کے لیے حاضر ہو جاتی ہے۔ دبئی میں اس قدر ترقی ہے کہ یہاں پچیس فیصد کرین جو اونچی بلڈنگ کو تعمیر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ وہاں ہر وقت موجود رہتی ہیں۔

     

    Advertisement

     

    لیکن دبئی ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، 1960 میں یہ شدید قحط کا شکار تھا، عرب کی دوسری ریاستیں ابو دھبی وغیرہ تیل کے بے شمار ذجائر دریافت ہونے کی وجہ سے ترقی کر چکی تھیں۔ لیکن دبئی میں بہت کم تیل کے ذخائر دریافت ہوئے جو دبئی کی معیشت کو چلانے کے لیے ناکافی تھے۔ ایسے میں شیخ زید بن سعید المخدوم کو دبئی کی حکمرانی ملی۔ جو بہت دور اندیش انسان تھے۔ انہوں نے سوچا کہ دبئی کو ایسی جگہ بنا دیا جائے گا کہ لوگ دنیا بھر سے اپنا پیسہ اور کاروبار یہاں لے آئیں گے جس سے ترقی شروع ہو جائے گی۔

     

    Advertisement

     

    شیخ صاحب نے برٹش گورنمنٹ سے بھاری قرضے لیے جس سے انہوں نے دبئی میں سڑکیں، ہسپتال اور نقل و حمل کے وسائل کو بہتر بنایا گیا۔ اور دبئی کی بندرگاہ جبلِ علی کو تعمیر کیا گیا کیونکہ زیادہ تجارت اس ہی بندرگاہ سے ہونا تھی، اس کی تعمیر کے لیے انڈیا،پاکستان سے سستی لیبر منگوائی گئی۔

     

    Advertisement

     

    ساتھ ہی ساتھ شیخ صاحب نے دبئی کو بلا ٹیکس زون بھی بنا دیا، اس لیے دنیا بھر سے لوگ کاروبار کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

    Advertisement