باٹا کمپنی جو اب روزانہ دس لاکھ جوتے بیچ کر دنیا کی سب سے بڑی جوتوں کی کمپنی بن چکی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں بہت اہم انکشافات ہیں:
باٹا کمپنی کے مالک کا نام تھومس باٹا تھا۔ 18 سال کی عمر میں ا س نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر جوتوں کا ایک کارخانہ کھول لیا۔ اس کارخانے کی شروعات 10 مزدوروں سے کی گئی جو ہاتھ سے جوتے بنایا کرتے تھے۔ 1904 میں اس کی نظر ایک آرٹیکل پر پڑی جس میں یہ بتایا گیا ہوا تھا کہ امریکہ کے ایک گکارخانے کا ذکر کیا گیا تھا جو مشینوں کے ذریعے جوتے بنا رہے تھے۔
اس کا مطالعہ کرنے کے لئے وہ اپنے 3 مزدوروں کے ہمراہ امریکہ گیا اور واپس آ کر اس نے بھی اپنی فیکڑی میں مشینیں لگائیں ۔ اس کے عد 4 سالوں کے اندر ہی اس کی فیکڑی جوتے بنانے والی یورپ کی سب سے بڑی فیکڑی بن گئی۔ باٹا کے جوتے معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سستے بھی تھے جس سے اس کی مانگ دن بدن بڑھنے لگی۔
1914 میں پہلی عزیم ہوئی جس میں باٹا کو عزیم میں شامل ہونے والی افواج کے جوتے تیار کرنے کا بھی ٹھیکا مل گیا تھا جس سے باٹا دن دُگنی رات چگنی ترقی کرنے لگا۔
اس کے بعد کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے لوگوں نے جوتے خریدنے کی بجائے کھانے اور زندہ رہنے کو ترجیح دی۔ تھومس نے ان حالات میں جوتوں کے ریٹ میں 50فیصد کی کمی کر دی ۔ سارا منافع اپنی جیب میں رکھنے کی بجائے اس کا کافی حصہ اپنے پاس کام کرنے والوں کے اوپر اور ان کے رہن سہن پر بھی لگایا اس لیے باٹا کی ترقی میں مزدوروں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔