محمد تسلیم رضا بیان کرتے ہیں کہ شکوہ شکایت کرنے والوں سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ کوئی بھی ان کو پسند نہیں کرتا۔
ایک جگہ ریسرچ کی گئی اور وہاں رونے دھونے کی شکلوں والی ڈمیز رکھی گئیں تو وہاں سے لوگوں کو گزار رہے تھے جو بھی شخص باہر آتا اس کا بھی منہ لٹکا ہوتا۔
دوسرے کمروں میں انہوں نے ہنستے مسکراتے چہروں والی تصویریں لگائی ہوئی تھیں۔ لوگ اس کمرے سے جب باہر آرہے تھے تو مسکراتے ہوئے آرہے تھے۔
تسلیم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے شکوہ شکایت کرنے کا صرف نقصان ہی دیکھا ہے فائدہ نہیں دیکھا، اگر کبھی فریاد کرنی ہے تو اپنے مالک کو سامنے کروجو مسئلے حل بھی کر دیتا ہے اور کسی سے کہتا بھی نہیں ہے۔رات کو بیٹھ کر دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے مالک کے حضور اپنی فریاد پیش کرو اور دیکھو کہ مسئلے کیسے حل ہوتے ہیں۔
کبھی کسی انسان کے سامنے شکوہ وغیرہ نہ کرو ،ہاں اگر کوئی ایسا شخص ہے جو آپکا مسئلہ حل کر سکتا ہے تو اس کے سامنے مختصراً اپنا مسئلہ بیان کر دو۔
فریاد امتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خَیرِ بشر کو خبر نہ ہو، واللہ وہ سن لیں گے، فریاد کو پہنچیں گے
اتنا بھی تو ہو کوئی جو فریاد کرے دل سے۔