محمد تسلیم رضا کہتے ہیں کہ کاریگر بھی یہ دیکھتا ہے کہ اس کا شاگرد خود بھی کسی کام میں کوشش کر رہا ہے یا نہیں۔ ایسا تو نہیں کہ اس کا ظرف ایسا ہے ہی کہ پیالہ بھر دوں اور چھلک پڑے۔
ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص ایک پیر صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضرت کرم کر دیں کوئی ایسی عطاء کر دیں کہ میں مخلوق کی خدمت کروں، تو کوئی فیض عطاء کر دیں۔ پیر صاحب نے فرمایا کہ ایک کام کرو کہ کل صبح دربار پر چلے جانا سامنے بادشاہ کا محل ہے وہاں کھڑے رہنا شام تک وہاں جو بھی سرگرمی ہو وہ نوٹ کر کے میرے پاس لے آنا۔ اب وہ شخص وہاں گیا اور سارا دن کھڑا رہا، بادشاہ سلامت کے دربار کے باہر لائن لگی ہوئی تھی،آخر میں ایک بابا جی آئے۔ ان کو یہ کہہ دیا گیا کہ بابا جی اب تو ٹائم ختم ہو چکا ہے آپ جائیں یہاں سے۔ بابا جی نے کہا کہ میں بہت دور سے آیا ہوں۔ بابا جی نے دوبارہ یہی بات کہی جس پر ان کو دھکا دیا گیا جس کی وجہ سے بابا جی گر گئے۔ وہ پھر اٹھ کر دوارہ آنے لگے دربان نے کہا تم ایسے باز نہیں آؤ گے اور بابا جی کو خوب پیٹا۔
اس بندے نے سارا منظر دیکھا اور پیر صاحب کے پاس جا کر کہا کہ ا ب مجھے عطاء کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر تیرے ادھر دربانوں کی جگہ اختیار ہوتا تو تو کیا کرتا۔ اس نے کہا کے میرے پاس اگر اختیار ہوتا تو میں ان دربان کی گردن مروڑ دیتا۔پیر صاحب نے کہا کہ وہ بابا جی جس کو درابانوں نے مارا میں نے ان سے ہی سب کچھ سیکھا ہے۔ اب تو سوچ ان کے پاس کتنی طاقت تھی ۔ پیر صاحب بھی دیکھتے ہیں کہ یہ شخص کم ظرف تو نہیں۔ پھر ہی اس کو کچھ اختیار کروں گا ۔ کم نظر کو کوئی چیز عطاء کر دی جائے تو معاملہ بہت سنگین ہو جاتا ہے۔