حضرت علیؓ نے کئی عرصہ پہلے مچھلی کے سمندر میں رہنے اور اس کے منہ میں زبان نہ ہونے کی وجہ بتا دی تھی، وہ یہ ہے کہ۔۔

    مچھلی ایک آبی جانور ہے اس کا سارا بدن سِلکی چھلکے سے ڈھکا ہوتا ہے جبکہ پانی میں تیرنے کے لئے اس کے پاس خصوصی پَر ہوتے ہیں۔

    ایک دن ایک شخص حضرت علی ﷜ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھنے لگا کہ یا علی ہر جانور کے منہ میں زبان ہوتی ہے لیکن مچھلی کے منہ میں زبان کیوں نہیں ہوتی اور مچھلی صرف پانی میں ہی کیوں رہتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں حضرت علی ﷜ نے فرمایا کہ اللہ نے مچھلی کے منہ میں زبان بھی دی تھی اور اس کو یہ طاقت بھی دی تھی کہ وہ خشکی پر چل سکے لیکن افسوس کے اس نے خود پر ظلم کیا اور اللہ کی اِن نعمتوں سے محروم ہو گئی، وہ شخص پوچھنے لگا کہ یا علی کونسا ظلم۔ تو حضرت علی ﷜ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ میں روح کو ڈالا اور یہ حکم دیا کہ ہر فرشتہ ان کو سجدہ کرے تو تمام فرشتوں نے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کیا مگر شیطان نے انکار کر دیا اور اللہ کی نافرمانی کا مرتکم ہوا۔ اور کہنے لگا کہ میں تو آگ سے بنا ہوں اور یہ تو مٹی سے بنایا گیا ہے اس ظلم کی پاداش میں ابلیس کو جنت سے نکال دیا گیا اور بد صورت بنا کر زمین پر گرا دیا گیا۔ اسی حسد میں وہ زمین پر چیخنے لگا کہ انسان زمین پر سب پر ظلم کرے گا۔ اے شخص اس وقت مچھلیاں زمین پر چلا کرتی تھیں ان کے منہ میں زبان بھی ہوا کرتی تھی، شیطان نے سب سے پہلے مچھلیوں کو بھٹکایا اور کہا کہ انسان جب زمین پر آئے گا تو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے تمہیں زندہ خنجر سے کاٹے گا، مچھلی نے جب یہ سنا تو وہ سمندر میں ہر مچھلی کو انسان کے خلاف بھڑکانے لگی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے منہ سے زبان کو غائب کر کے اس کے منہ میں وبال پیدا کر دیا اور یہ حکم نافذ کر دیا کہ کوئی بھی انسان زندہ نہیں کاٹے گا بلکہ تمہاری حدِ قدرت ہم نے پانی تک ہی رکھ دی ہے۔ تم جب بھی پانی سے باہر نکلو گی تو خود ہی تڑپنے لگو گی۔

    یہی وجہ ہے کہ اس کو ذبح نہیں کیا جاتا یہ خود ہی تڑپ کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔

    Advertisement