ڈائنا سورز کے زمانے کے جانور آج بھی حیات ہیں، جان کر آپ حیران ہو جائینگے۔

    ایک اندازے کے مطابق آج تک انسانوں نے سمندر کے 5 فیصد حصے کو بھی ٹھیک سے دریافت نہیں کیا کہ وہاں پر کیا کچھ موجود ہو سکتا ہے لیکن حال ہی میں سپیس سٹیشن کی طرح سمندر میں ایک سٹیشن تعمیر کیا جارہا ہے جس میں رہ کر سائنسدان سمندر کی مزید تحقیق کریں گے۔

    جس طرح ہماری زمین کی سطح ہر طرف سے فلیٹ نہیں ہے اسی طرح سمندر بھی بالکل ہموار نہیں ہے۔ میریانا ٹرنچ سمندر کا دریافت کردہ سب سے گہرا علاقہ یا سب سے گہری کھائی ہے۔ یہ تو بہت ساری گہری کھائیوں کا نام ہے لیکن اس کی سب سے گہری کھائی کا نام چیلنجر ڈیب سب سے زیادہ گہری کھائی ہے۔ اس کی گہرائی 11 کلو میٹر ہے۔

    میریانا ٹرنچ کی گہرائی میں پانی کا پریشر عام طور پر موجود سمندری پریشر سے 1100 گنا زیادہ ہے۔1960 میں ڈان والش اور جیک پگرڈ اپنی سب میرین کے اندر بیٹھ کر اس 11 کلو میٹر کی گہراہی کے اندر پہنچے اور انہیں یہاں عجیب و غریب قسم کے جانور دکھے جنہوں نے ان کے حوش اڑا دیے۔ جیک پیگرڈ نے لکھا کہ کوئی چھوٹے ڈائناسور کی شکل جیسی مخلوق جو بہت بڑے نوکیلے دانتوں والی تھی ان کی سب میرین کا پیچھا کر رہی تھی۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد وہ خود ہی وہاں سے غائب ہوگئی۔ پانی کے اس قدر پریشر میں بھی اس طرح کی مخلوقات موجود تھیں۔ پانی کے زیادہ پریشر کی وجہ سے یہ لوگ زیادہ دیر یہاں رک نہیں سکے اور واپس آ گئے۔

    Advertisement

    اسی طرح ایک ٹیسٹ وہیکل کو لوہے کی مظبوط تاروں سے باندھ کر پانی کے اندر اتارا گیا لیکن کچھ دیر بعد ہی باہر موجود لوگوں کو لگا کہ کوئی چیز اس تار کو مظبوطی سے پکڑے ہوئے ہے۔ اس کو جب کوبہت سی ششوں کے بعد باہر نکال لیا گیا تو یہ دیکھنے کو ملا کہ اس وہیکل کے جگہ جگہ بڑے دانتوں کے نشانات موجود تھے۔ ان دانتوں کے نشانوں کا جائزہ لے کر یہ معلوم ہوا کہ یہ دانت اس دنیا کے سب سے بڑے مگر مچ کے ہوسکتے ہیں یعنی میزو سورس۔ یا پھر میکلا ڈون شارک بھی ہو سکتی ہے۔