وہ وقت قریب ہے جب ریت سونے کی قیمت پر بکے گی۔۔

    معمولی سی دکھنے والی ریت انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو میں شامل ہوتی ہے۔ شیشے، شراب، متعدد کھانوں، ٹوتھ پیسٹ، کاغذ،ہیئر سپرے اور کاسمیٹکس جیسی سینکڑوں روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں میں ریت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر یہ ریت نہ ہو تو کمپیوٹر میں استعمال ہونے والی سیلیکون چپس نہیں بن پائیں گی۔

    اس کا سب سے بڑا استعمال تعمیرات کے شعبے میں ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے گھر سے لے کر، سڑکوں، پُلوں اور ڈیموں تک کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 50 عرب ٹن تک کی ریت کو استعمال کیا جارہا ہے۔

    اس کو تیسرا بڑا نیچرل سورس قرار دیا گیا ہے۔ فی الحال سَستی ہونے کی وجہ سے ریت کو کنکریٹ کی تیاری میں سیمنٹ اور بجر ی کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں دنیا کو ایک جدید شکل دینے میں جہاں پر پٹرول نے اہم کردار ادا کیا ہے وہیں ریت کی کھپت میں بھی بے پناہ اضافے نے اس کے ذخائر کو ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی لئے اس کاروبار سے جڑے افراد نے دریاؤں اور سمندروں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جہاں سے ریت نکال کر اس کو ضروری چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    Advertisement

    آج سے چالیس پچاس سال پہلے متحدہ عرب عمارات کا تپتا ریگستان بھوک اور افلاس کی نمائندگی کرتا تھا۔ لیکن اب یہاں بلند و بالا عمارات بن چکی ہیں۔ اپنی اسی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر متحدہ عرب عمارات کی ریاستیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں اور ایسے پروجیکٹس پر کام کر رہی ہیں جس کے بارے میں انسانی دماغ نے کبھی سوچا بھی نہیں ۔

    مسلسل ہوا نے دنیا کے ریگستانوں کی ریت کو اس قدر نفیس بنا دیا ہے کہ یہ اب کنکریٹ کے لئے صحیح نہیں۔

    سنگاپور نے 1958 سے لے کر اب تک 130 کلو میٹر کے سمندر کو زمین میں تبدیل کر دیا ہے۔ سمندر سے ریت کی اس غیر قانونی مائنینگ کی وجہ سے جہاں آبی جانوروں کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے وہیں ساحلوں سے بھی ریت کم ہو جانے کی وجہ سے، ساحل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

    Advertisement

    اگر یہ ہی صورتَ حال رہی تو کوڑیوں کے بھاؤ بکنے والی یہ ریت سونے کے بھاؤ بِکے گی اور کسی غریب آدمی کا گھر بنانا محض ایک خواب رہ جائے گا۔

    صحیح بخاری میں ایک حدیث کا ذکر ہے : “جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔ “علماء کا اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ حضور پاک ﷺ کی یہ حدیث متحدہ عرب عمارات کی ترقی کی جانب اشارہ ہے۔

    Advertisement