فرعون کی موت رہتی دنیا کے مسلمانوں کے لئے عبرت کانشان ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب فرعون مرنے والا تھا تو اس نے اپنی موت کو سامنے دیکھ کر یہ چاہا کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لے لیکن اس کو اس بات کی توفیق اللہ کی طرف سے حاصل نہیں ہوئی تاکہ قیامت تک کے مسلمانوں پر یہ بات واضع ہو جائے کہ انسان شرک جیسے کسی گناہ میں شریک نہ ہو۔ اور انسان پوری زندگی شرک جیسے گناہ میں مبتلا رہ کر اس امید پر نہیں رہ سکتا کہ وہ اس دنیا سے جاتے ہوئے توبہ کر لے اور اس کو معافی بھی مل جائے۔ جیسے کتابوں میں ظاہر ہوتا ہے کہ قریب تھا کہ اللہ کا رحم فرعون پر ظاہر ہو جاتا لیکن اسی خدا وند کے حکم سے فرعون کے منہ میں کیچڑ ڈال دیا گیا تاکہ نہ یہ فرعون توبہ کر سکے اور نہ ہی اللہ کو ایسے شخص پر رحم آئےجس نے نہ صرف اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا بلکہ تمام عمر انسانیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے۔ ایسے شخص پر بھی اللہ کا رحم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مرنے سے پہلے اگر انسان اللہ تعالیٰ سے ایک دفعہ توبہ کر لے تو اللہ اس اس کو معاف فرما دے گا لیکن اگر وہ موت کو سامنے پا کر توبہ کرنا چاہے تو اس کے لئے کوئی نہ کوئی ایسی چیز بہانہ بن جائے گی جس کی وجہ سے وہ توبہ ہی نہیں کر پائے گا۔
فرعون جو کہ بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لئے خشک راستوں پر چل پڑا تھا کیونکہ فرعون کے لشکر نے فرعون سے کہا تھا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ موسیٰؑ نے سمندر پر جادو کر دیا ہے۔ تو اس وقت فرعون ایک گھوڑے پر سوار تھا جبکہ جبرائیلؑ بھی ایک دوسرے گھوڑے ہر سوار ہوکر فرعون کے آگے سے اس ہی راستے پر آگئے۔ فرعون کے گھوڑے کو جب گھوڑے کی خوشبو آئی تو وہ فرعون کو لے کر اس راستے پر دھوڑاجس پر چِلا ّکر تمام لشکریوں سے کہا گیا کہ سب بادشاہ سے مل جاؤ وہ سب ان راستوں میں داخل ہوئے اور سمندر آپس میں مل گیا اور وہ سب غرق ہو گئے۔ اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا اور سمندر سے باہر نکال پھینکا تاکہ ہم اس کو اچھی طرح دیکھ لیں۔
حضرت موسیٰؑ نے دعا کی تو سمندر نے ان سب کو نکال کر ساحل پر پھینک دیا۔