مسجد شب بھر کو مسجدوں میں سب سے منفرد مقام حاصل ہے، اس عظیم الشان مسجد میں جہاں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی کرتی ہے وہیں جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کا بھی خصوصی اہتمام کرتی ہے۔ جس کے تحت نہ صرف مسجد کے اندر بلکہ مسجد کے باہر بھی پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی۔
یہ مسجد انگریزوں کے دورِ حکومت میں 3 مرلہ پلاٹ کی صورت میں موجود تھی اور یہاں ہندوؤں کی اکثیریت پائی جاتی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک مسلمان کا یہاں سے گزر ہوا تو وہ وقت نماز کا تھا لہٰذا اس نے یہاں نماز ادا کی جبکہ یہ علاقہ اس وقت ہندوؤں کی اکثیریت کا حامل تھا، ہندوؤں کو یہ برداشت نہ ہوا اور انہوں نے ہنگامہ اَرائی شروع کر دی۔ یہاں تک یہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور وہاں ہندوؤں کا موقف تھا کہ یہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لئے یہاں مندر تعمیر ہوگا۔ یہ 1917 کا زمانہ تھا ۔ چونکہ تمام ہندو اور مسلم اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے عدالت کے فیصلے کے منتظر تھے، اس وقت عدالت کا جج انگریز تھا اور مسلمانوں کی جانب سے اس کیس کی پیروی قائداعظم محمد علی جناح کر رہے تھے، جب عدالت لگی تو انگریز جج نے یہ کہہ کر معاملہ لٹکا دیا کہ وہ کل اس جگہ کو خود دیکھے گا اور موقع پر جو صورتِ حال ہوگی اس کو قائم رہنے دیا جائے گا۔
یہ معاملہ دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے وکیل نے مسلمانوں پر ساری صورتِ حال واضع کر دی کہ یہ جج مسلم مخالف ہے اور ہندوؤں کی طرف داری کرے گا۔ اس لئے بہترین حل یہ ہے کہ کل اس انگریز جج کے دورہ کرنے سے پہلے پہلے یہاں مسجد تیار ہو۔ اس وقت یہ قانون تھا کہ مذہبی مقامات کو ہر گز مسوار نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی کسی کی عبادت گاہ کسی دوسرے کو دی جاتی تھی۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت ذرائع بہت کم تھے مگر دل ایمان کی حرارت سے روشن تھا۔