آج سے 300 سال پہلے انتہائی خوبصورت اور بہت بڑا محل ہوا کرتا تھا جو اب کھنڈرات کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ جیسے ہی اس محل کا مالک فوت ہوا اس کے بعد کسی نے بھی اس محل میں آباد ہونے کی کوشش نہیں کی۔لوگوں کو اس محل سے شدید نفرت تھی۔ آج بھی جب اس محل کے پاس سے کوئی شخص گزرتا ہےتو اس محل پر تھوکتا ضرور ہے۔
انسانوں کی تاریخ میں یہ پہلی عمارت ہے جس سے نفرت کی جاتی ہے۔ اس کو اس ملک کی گونمنٹ نے سرکاری طور پر غدار محل کا نام دے رکھا ہے۔سب سے بڑے علمی ادارے یونیسکو نے بھی اس عمارت کو غدار محل کا نام دے رکھا ہے۔
اس عمارت کو نہ تو استعمال کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو توڑا جاسکتا ہے۔ اس کے نام سے اندازہ لگایا ہی جا سکتا ہے کہ اس محل کا بادشاہ کس قدر بدبخت تھا جس سے اس قدر لوگ نفرت کرتے ہیں۔
کسی نے بھی آج تک کسی سے اتنی نفرت نہیں کی کہ اس کے گھر کو بھی نفرت کے نام میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔ اس شخص کا جرم تھا غداری۔ اس غدار شخص نے جن لوگوں کے لئے اپنے ملک اور قوم سے غداری کی ان ہی لوگوں نے اس کو تاریخ کا سب سے بڑا غدار کرار دیا۔ اور اس کے محل کو غدار محل کا نام دیا۔
وہ شخص میر جافر تھا۔ یہ نہایت بد فطرت آدمی تھا۔ اس کی نگاہیں تختِ بنگال پر تھیں۔ یہ چاہتا تھا کہ یہ خود نواب بن جائے۔ اس لئے اس نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے ان کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا۔ جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا۔ انہوں نے میر جافر کو 1757 میں برائے نام بنگال کا نواب مقرر کر دیا۔ یہ ایک کٹ پتلی حکمران تھا۔اصل اختیارات لاڈ کلائو کے ہاتھ میں تھے۔
اس لئے انگریزوں کو لوٹ مار کی آزادی تھی۔ انہوں نے بنگالی عوام کو جی بھر کے لوٹا۔
غدار غداری تو کر جاتے ہیں لیکن تاریخ ان کو معاف نہیں کرتی۔ ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔آج بھی لوگ اس کے محل پر تھوکے غیر آگے نہیں نکلتے اور جہاں یہ شخص حکمرانی کرتا تھا وہیں اس کو غداری کے لقب سے نوازا گیا جو آج تک قائم ہے۔