اژدھا کیسے وجود میں آیا، حقیقت سامنے آ ہی گئی۔۔

    مؤرخین کے مطابق قدیم زمانے میں اژدھے کا ذکر ملتا ہے جسکو مُشوسو کہا جاتا تھا۔ اس جانور کا آدھا جسم ایک سانپ جیسا تھا جبکہ اس کی اگلی ٹانگیں شیر اور پچھلی ٹانگیں ایک عقاب جیسی تھیں۔اور اس ہی جانور کو ڈریگنز کا جد امجد تصور کیا جاتا ہے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈریگن ہر ثقافت میں اپنی شکل اور خصوصیات بدلتے رہے لیکن ان سب میں جو ایک بات مشترک ہے وہ ان کی سانپ سے مشابہت ہے۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر انسانوں کے دل میں سانپ کے لئے فطری طور پر ایک خوف پایا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ علاقے جہاں سانپ موجود نہیں بھی ہیں وہاں کے افراد بھی سانپوں سے ڈرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف بٹھانے کے لئے قدیم تہذیبوں میںجب قدیم انسان کو ڈائنوسار کی ہڈیاں ملیں تو انہوں نے اس کو ایک بڑی اژدھے کی باقیات سمجھتے ہوئے ایسی کہانیاں تخلیق کرنا شروع کردیں، جن میں دیو قمد سانپوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان ہی کہانیوں نے آج کے ڈریگن کو وجود بخشا۔

    انگلش فلموں میں بھی ڈریگن کو بہت زیادہ طاقت ور جانور دکھایا جاتا ہے اور وہیں پر کچھ ایسی فملیں بھی ہیں جس میں اتنے بڑے جانور کو پالتو جانور کے طور پر بھی دکھایا گیا۔

    Advertisement

    چائنہ میں ڈریگن کو بہت عزت دی جاتی ہے، بھٹان میں بھی ڈریگن کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈریگن ہی بھٹان کا قومی نشان بھی ہے۔

    ہندو مذہب میں بھی اژدھے سے ملتی جلتی ایسی ہی ایک مخلوق کا ذکر ملتا ہے جو بھوک اور قحط سالی کی نمائندگی کرتا ہے، ڈریگن کے مطلق دنیا بھر میں ملتے جلتے تاثرات پائے جاتے تھے لیکن مغربی معاشرے میں عیسائیت کے فروغ کے بعد اس کو شیطان اور گناہ سے تشبیہ دی جانے لگی۔

    Advertisement