ایک دفعہ سقراط اپنی درسگاہ میں بیٹھا ہوا تھا اور اپنے شاگردوں کو پڑھا رہا تھا۔ اچانک ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا اور اس نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔، وہ آدمی بہت غصے میں تھا اور سقراط سے بد تمیزی کر رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ تم لوگوں کو کیا الٹی سیدھی باتیں سکھاتے رہتے ہو تم ان کو گمراہ کر رہے ہو، تم معصوم لوگوں کی زندگیاں خراب کر رہے ہو۔ اس آدمی کی بد تمیزیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ سقراط کے شاگردوں کو غصہ آرہا تھا لیکن سقراط بڑے تحمل سے اس کی باتیں سنتا رہا اور اس شخص کو جواب میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔
آخر وہ آدمی عجیب نظروں سے سقراط کو دیکھتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ایک شاگرد سے رہا نہ گیا اس نے سقراط سے پوچھا کہ آپ خاموش کیوں رہے، آپ نے اس بدتمیز آدمی کو جواب کیوں نہیں دیا۔سقراط نے مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ اگر کوئی آپ کے لئے تحفہ لے کر آئے اور آپ اسے قبول نہ کریں تو پھر وہ تحفہ کس کا ہوگا شاگرد نے کہا کہ وہ تحفہ لانے والے کو اپنے ساتھ واپس لے کر جانا ہوگا۔ وہ تحفہ اسی کا رہے گا جو اسے لے کر آیا تھا۔
سقراط نے کہا بالکل ایسے ہی اس آدمی نے آکر میرے ساتھ الٹی سیدھی باتیں کرنا شروع کر دیں میرے ساتھ بد تمیزی کی لیکن میں خاموش رہا میں نے اس کی باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ میں نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا مطلب میں نے اس کی باتوں کو قبول ہی نہیں کیا۔آخر وہ آدمی شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا اور وہ ساری فضول باتیں جو اس آدمی کی تھیں وہ اپنے ساتھ واپس لے کر گیا ہے۔