کراچی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جبکہ دنیا کا بارواں بڑا شہر ہے۔ 1947 میں جب پاکستان بنا تو کراچی پاکستان کا دارلحکومت تھا جبکہ 1959 میں پہلے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ 1960 سے 1970 کی دہائی میں کراچی اپنی زبردست نائٹ لائف کی وجہ سے جانا جاتا تھا اور دنیا میں اس کو سِٹی آف لائٹس کا نام بھی دیا۔ 1980 میں سویت یونین ٹوٹنے کے بعد کراچی میں اسلحہ آنے لگا، یہاں پر جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے لگ پڑا۔ اگلی دو دہائی تک کراچی رنگ، نسل اور قومیت کے نام پر لٹتا رہا۔ 2013 میں کراچی والوں کی قسمت نے پلٹا کھایا جب پاکستان ریجنرز نے ان تمام سیاسی پارٹیوں پر چڑھائی شروع کی جو پاکستان میں فساد پھیلانے میں شامل تھے۔
اس کے نتیجے میں کراچی جو کہ 2014 تک جرائم شرح کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا شہر تھا وہ 2021 میں 115 نمبر پر آگیا۔
بحیرہ عرب کے سامنے کراچی شہر ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتا ہے۔
حقائق:
کراچی کا نام کولاچی لفظ سے نکلا ہے اور کولاچی ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر یہاں پر موجود ایک علاقے کا نام کولاچی جو گوٹھ پڑ گیا تھا۔
سترویں صدی تک کراچی کا گاؤں مسکت اور خلیجِ فارس سے آنے والوں کے لئے تجارت کا مرکز بن چکا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ ساری دنیا پر راج کر رہا تھا اور انہیں بھی کراچی کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ فروری 1843 کو برطانیہ نے کراچی پر قبضہ کیا اور شہر کو سر چارلس نیپر کے حوالے کر دیا جس نے کراچی کو برطانوی راج کا حصہ بنانے کا اعلان کیا۔ 1846 تک اس کی آبادی صرف 9000 کے لگ بھگ تھی۔ انیسوی صدی کے اختتام تک کراچی کی آبادی بڑھ کر 1 لاکھ 5 ہزار ہو گئی۔
آج 2021 میں کراچی کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ یہ نہ صرف آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ پاکستان کی 2 سب سے بڑی بندرگاہیں پورٹ آف کراچی اور پورٹ بن قاسم بھی کراچی میں ہی موجود ہیں۔
آج کراچی پاکستان میں انڈسٹریل اور فائنیشنل بُوم کا سنٹر بن چکا ہے۔ پاکستان کی 30 فیصد سے زائد انڈسریز کراچی میں موجود ہیں۔
کراچی پاکستان کا کھانےپینے کا سنٹر بھی ہے یہاں بہت سے لذیز کھانے دنیا میں مشہور ہیں جیسے کراچی کی سندھی بریانی، ربڑھی والا دودھ، حلیم اور بہت کچھ دنیا بھر سے لوگوں کو کراچی کھینچ لاتا ہے۔
کراچی پاکستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں بہت ماڈرن اور ایڈوانس ہے۔
کراچی کو ایک اعزاز یہ بھی جاتا ہے کہ یہ عبدالستار ایدھی کا گھر ہے۔ 1947 میں محض 500 ڈالر سے شروع ہونے والا عبدالستار ایدھی ٹرسٹ آج دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس کا نیٹ ورک بھی چلا رہا ہے جس میں 1800 سے زیادہ ایمبولینس شامل ہیں۔صرف کراچی شہر میں ایدھی سنٹر 6000 سے زائد ایمرجنسی کالیں لیتا ہے اور شہریوں کی خدمت کرتا ہے۔