ساجد سد پارہ کے مطابق جب وہ آکسیجن سلنڈر کے ریگولیٹر کے خراب ہونے کی وجہ سے کیمپ واپس آئے تو اُس وقت دن کے 10 بجے تھےاور علی سدپارہ کی ٹیم اُس وقت 8 ہزار 2 سو میٹر ریڈ زون کے سب سے مشکل ترین سیکشن کے انہتائی مشکل موڑ پر تھی۔
ماہرین کے مطابق اس مشکل مقام پر علی سدپارہ کی ٹیم کے ساتھ پیش آنے والے حادثات کی تین صورتحال ہو سکتی ہیں۔
1. تھکاوٹ یا آکسیجن کی کمی سے جسم پر ہونے والے منفی اثرات کے باعث آپ کے پاؤں کسی جگہ سے پھسلیں اور آپ فکسڈ لائن کو اپنے وزن کی فریکشن کے باعث اکھاڑنے کا سبب بن جائیں۔
2. رسی اچانک ٹوٹ جائے؛ کے ٹو پر ہر سَمٹ پر نئی رسی لگائی جاتی ہے اور 16 جنوری کو نیپالی گروپ نے جب سروے کیا تو اس وقت نئی رسی لگائی گئی تھی جسے لگے ہوئے پندرہ دن کا وقت گزر چکا ہے اور اُس پر برف بھی پڑی ہو گی لہذا پُرانی اور نئی رسی میں فرق کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور اگر اس نئی رسی کی بجائے کسی پرانی رسی کو پکڑ لیا جائے اور رسی کے ٹوٹ جانے سے انسان پھسل جائے تو فریکشن بہت زیادہ ہوگی اور انسان پنڈولم کی طرح لٹک جائے گا۔
اور اگر برف پر گریں تو چونکہ برف نرم ہوتی ہے تو آدمی سِلپ ہوتا جاتا ہے اور اس صورت میں آئس Sacks کا استعمال کر کے خود کو بچایا جا سکتا ہے لیکن اگر اُس حصے میں گِریں جہاں چٹانیں ہوں اور پتھریلا ہو جس کو تکنیکی زبان میں ebis کہتے ہیں تو ایسی صورت میں دماغی چوٹ کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔