ہم ہر شے کے فانی ہونے پر یقین رکھتے ہیں، جو کل تھا وہ آج نہیں اور جو آ ج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔ اس روئے زمین پر ہزاروں تہذیبی آئیں اور معدوم ہو گئیں۔ یہ تہذیبیں جو کبھی تھیں کچھ تو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئی۔ لیکن کچھ ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک تہذیب ہڑپہ
ہڑپا شہر کے اصل نام کے بارے میں ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا، لیکن تقریبا بارہ سو سال پہلے لکھی جانے والی ہندوؤں کی کتاب “رگ وید” سے اس شہر کی تاریخ کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا گیا ہے جس کے مطابق ” ہری یوپویا” نامی ایک شہر میں آریاؤں کی اس شہر کے باشندوں سے جنگ ہوئی اور اس شہر کو مٹی کے ڈھیر کی طرح ملیامٹ کردیا اور بعض جگہوں پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے یہ شہر تباہ ہوا۔
مزید پرھیۓ: جا نئے پانی میں موجود قبر جسے آج تک کچھ نہیں ہوا
محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر سر جان مارشل نے 1921ء کے بعد اس کی کھدائی شروع کروائی اور 1931 ء میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے روک دیا گیا۔
ہڑپا اور موہن جودڑو دونوں شہروں کا نقشہ اور ترتیب انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔ لوگوں نے ہڑپہ کی اینٹیں چوری کرکے نئی تعمیرات میں استعمال کی اور لاہور ملتان ریلوے لائن بچھانے کے سلسلے میں یہاں سے ملبہ اٹھا کر استعمال کیا گیا ان وجوہات کی وجہ سے ہڑپہ کی مکمل شکل و صورت کا تو پتہ نہیں چل سکا لیکن کہا جاتا ہے یہ موئن جو دڑو سے زیادہ پرانا شہر تھا۔
یہاں ایک قلعہ ملا ہے، جو جنوب مغرب کی طرف ہے اور شہر مشرق کی طرف تھا اور اس کے جنوب میں ایک پہاڑی اور ایک قبرستان ہے جسے “مدفن ” کہتے ہیں اور اس کے علاوہ یہاں ایک جدید قبرستان بھی موجود ہے جس کی وجہ سے اس طرف مزید کھدائی نہیں کی گئی۔
قلعے کی تعمیر کے بھی کم از کم تین مرحلے نظر آتے ہیں۔ پہلی بار قلعہ پکی اینٹوں کے ٹکڑوں سے بنایا گیا، جس پر حملے کےکوئی آثار نہیں ملے صرف موسمی اثرات دیکھنے میں آتے ہیں۔ دوسری تعمیر پختہ اینٹوں سے کی گئی اور تیسری میں بھاری برکم پشتے لگا کر اسے بہت ہی محفوظ اور زبردست بنایا گیا تھا۔
مزید پرھیۓ: اسلامی دُینا کی شاندار فتح، ترکی نے 1500 سال پرانی مسجد کیسے فتح کر دی۔
قلعے کے شمال کی جانب غلام گھروں کے اثرات ملتے ہیں، اور ان کے مٹی میں دفن ہو جانے کے بعد ان کے اوپر 16 بھٹیاں بنائی گئی تھی، جو ناشپاتی کی شکل کی تھی ان بھٹیوں کے قریب کھٹالی پڑی ہوئی ملی ہے جس میں کانسی پگھلانے کے آثار ہیں۔
یہاں بہت سی چکیاں ملی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک بڑی سرکاری فلورمل ہو سکتی ہے، جس میں غلام مشقت کے لیے مامور ہوا کرتے تھے۔ اس سے آگے اناج گھرکے آثار ملتے ہیں، جو کہ نہایت ہی سمجھ بوجھ کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ اناج گھر چونکہ قلعے کے اندر واقع ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اناج کی تقسیم اور معاملات حکومت کنٹرول کرتی ہوگی اور ابھی سکہ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا اس لیے اس کو سرکاری خزانہ سمجھ سکتے ہیں۔
ہڑپا میں بہت زیادہ قدیم انتہائی چھوٹی چھوٹی مہریں بھی ملی ہیں، جن کی لمبائی 1.07 تا 1.36 انچ ہے ان پر جانوروں کی تصویریں یا نشانات نہیں ہیں، صرف کچھ پر مچھلی اور مگرمچھ کی تصاویر ملیں ہیں۔
ہڑپہ سے ملنے والے برتنوں کو دیکھا جائے تو زیادہ تر سرخ رنگ کرنے کے بعد اس پر کالے رنگ کے ساتھ رنگ نقاشی کی گئی ہے۔
ان ساری باقیات کے ملنے کے بعد بھی اس شہر کی تباہی کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
نوٹ: یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، اس کا مقصد کسی کی دل زاری نہی بلکہ تاریخ کے بارے میں آگاہی پیدہ کرنا یے۔ اس کے بارے میں آپ اپنی رایئے کا اظہار کمنٹ بکس میں کر سکتے ہے۔
مجھے آج تک کبھی پیار نہیں ملا۔۔۔ کون ارشد ندیم کے دل کی شہزادی؟ سب… Read More
لوگ مشہوری کے لئے انعام کا اعلان کرتے دیتے مگر۔۔۔ ارشد ندیم کے پاٹنر کے… Read More
ارشد ندیم کے سسر نے اسے کیا تحفہ دیا؟ جان کر آپ بھی حیران رہ… Read More
رواں سال مون سون کا سیزن اپنے پورے جوش کے ساتھ جا رہا ہے اور… Read More
ارشد ندیم نے اپنی ماں سے کیا وعدہ کیا تھا، ان کی والدہ نے سب… Read More
ہم سات بہن بھائی ہیں اور سارا سال گوشت نہیں کھا پاتے، عیدالاضحٰی کو ہمیں۔۔۔۔۔… Read More