جب ایک عیسائی بادشاہ نے سوال پوچھا کہ زمین کا ایسا کون سا حصہ ہے جہاں دنیا کے قیام سے آخرت تک صرف ایک مرتبہ سورج کی روشنی پڑی ہے۔ نہ اس سے پہلے کبھی یہ روشنی پڑی تھی اور نہ آئندہ کبھی پڑے گی، اس سوال پر خلیفہ نے حضرت عبداللہ کو اپنے دربار پر بلا کہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ۔۔

    عیسائی بادشاہ کا خلیفہ دوم سے ایسا سوال جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔

     

    لاہور (اعتماد ٹی وی) اسلام کی تبلیغ کے لئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ دوہرا امتحان ہوتا ہے جس پر اگر آپ نے ظرف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو آپ نہ صرف سامنے والے کی نظروں میں بلکہ اللہ کی نظروں میں بھی اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔

    Advertisement

     

    ایسے ہی ایک عیسائی بادشاہ نے خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے سوالات رکھے جن کے جواب اس کے خیال میں کسی کے پاس نہیں تھے۔ ان سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ زمین کا ایسا کون سا حصہ ہے جہاں دنیا کے قیام سے آخرت تک صرف ایک مرتبہ سورج کی روشنی پڑی ہے۔ نہ اس سے پہلے کبھی یہ روشنی پڑی تھی اور نہ آئندہ کبھی پڑے گی۔

     

    Advertisement

    خلیفہ دوم نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اپنے دربار میں بلایا کیونکہ علم و فضل میں انکا ایک مقام و مرتبہ تھا انھوں نے عیسائی بادشاہ کا سوال دہرایا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بغیر سوچے جواب دیا کہ زمین کا وہ حصہ جہاں سورج کی کرنیں صرف ایک مرتبہ پڑی ہیں وہ بحرہ قلزم کی تہہ ہے جہاں فرعون غرق ہوا تھا۔

     

    حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کو بچانے کے لئے سمندر میں عصّا مارا تھا جہاں سمندر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تو اللہ کے حکم سے سورج نے بہت جلد اس حصے کو سکھایا تھا تاکہ حضرت موسیٰؑ آرام سے گزر جائیں ۔
    جب حضرت موسیٰؑ اپنے ساتھیوں سمیت گزر گئے ۔

    Advertisement

     

     

    فرعون نے ان کا پیچھا کیا اور سمندر آپس میں مل گیا ۔ حضرت موسیٰؑ کے عصا مارنے سے سمندر دوبار ہ ملنے کے دوران سورج کی روشنی زمین کے اُس حصے پر پہنچی اور اب قیامت تک نہیں پہنچے گی۔

    Advertisement

     

     

    اس طرح کی اور اچھی پوسٹ پڑھنے کے لئے ہمارا پیج لائیک اور شئیر ضرور کریں۔

    Advertisement