سورۃ القدر میں ایک رات کا ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن پاک کو اس رات میں نازل فرمایا گیا اور رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات شب قدر ہے۔ اس رات کو پروردگار ِعالم نے انسان پر اپنی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت قرار ددیتے ہوئے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے ،احادیث سے مروی ہے کہ جو شخص زندگی میں ایک بار اس رات کو اس حالت میں حاصل کرلے کہ اپنے رب کی عبادت میں محو استغراق ہو تو اس کے عمر بھر کے گناہ زائل ہوجاتے ہیں اس رات کی بے شمار فضیلتوں میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیںپروردگار عالم کی سب سے باعظمت جامع و کامل کتاب جسے ہمیشہ باقی رہنا ہے وہ اسی شب میں نازل ہوئی۔جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے: شہر رمضان الذی انزل فیہہ القرآن (ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ) لیکن رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟
اس کا بیان دوسری آیت میں ہے انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ ( بیشک!ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ) اور سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا انا انزلناہ فی لیلۃ القدر (بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ) لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کیا ہے۔اس شب کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ رات با برکت و با عظمت ہے لیلۃ العظمۃ اور قرآن مجید میں لفظ قدر عظمت و منزلت کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے ما قدروا اللہ حق قدرہ (انھوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس طرح پہچاننا چاہئے۔
اللہ نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اختیار خود انسان کے ہاتھ دیا ہے وہ سعادت کی زندگی حاصل کرنا چاہے گا اسے مل جائے گی وہ شقاوت کی زندگی چاہے گا اسے حاصل ہو جائے گی۔ یا ایھا النّاس انّما بغیکم علی انفسکم لوگو! اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تمہاری سرکشی صرف تمہیں نقصان پہچائے گی۔ جو کوئی سعادت کا طلبگار ہے وہ شب قدر میں صدق دل کے ساتھ اللہ کی بار گاہ میں توبہ کرے، برائیوں اور برے اعمال سے بیزاری کا عہد کرے گا۔اللہ سے اپنے خطاؤں کے بارے میں دعا اور راز و نیاز کےذریعہ معافی مانگے گا یقینا اس کی تقدیر بدل جائے گی اور امام زماں (ارواحنا فداہ) اس تقدیر کی تائید کریں گے۔