مسواک کو لیبارٹری میں لے گیا اور تجزیہ کیا تو اس پر کیا انکشاف ہوا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور مضمون نگار میاں غفار احمد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں…
سید ابو الاعلی مودودی کا ایک کتابچہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان سے پوچھاگیا ، دین کیا ہے؟ انہوں نے مدلل جوابدیا مگرمختصر ترین الفاظ میں یوں ،’’
دین وہ سامنے دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کی مانند ہے۔ اگر آپ اس گھڑی کی ایک گراری نکال کر اس میں سائیکل کی گراری ڈال دیں تو کیا یہ گھڑی چلے گی لوگوں نے کہا نہیں ۔ انہوں نے کہا چلیں اسی گھڑی سے کسی دُگنے یا تگنے سائز کی گھڑی کی گراری ڈال دیں تو کیا یہ چلے گی ۔ لوگوں نے کہا نہیں ۔ سید نے کہاجب
آپ دین میں اپنی طرف سے قرآن و سنت سے ہٹ کرتبدیلی کریں گے تو دین کیسے اپنی اصلی حالت میں رہے گا۔‘‘پی سی ایس آئی آرلیبارٹری کے ایک ہمارے سائنسدان دوست ایک مسجد میں وضو کررہے تھے انہوں نے دیکھا کہ وضو خانہ میں پڑی ہوئی مسواکیں لوگ اُٹھاتے ہیں اور دانت صاف کرکے وہیں رکھ دیتے ہیں۔ پھرکوئی دوسرا وضوکرنے والا اسی مسواک کا استعمال کرنا شروع کردیتا ہے ۔ا نہوں نے یہ مسواکیں اٹھائیں ،ان کا ٹیسٹ کیا اورمختلف لوگوںکو ایک ہی مسواک استعمال کرنے کوکہا اورہرمرتبہ اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا تو کسی
بھی مسواک میں جراثیم کا شائبہ تک نہ تھا۔اللہ کے حکم اور نبی کریم ﷺ کی سنّت کے بغیر دین کی تکمیلِ کیسے ممکن ہو؟ درخت اگا کر مسواکیں بنانا بھی اکانومی ہے۔مرغیاں، بکریاں پالنا اور مسواک اُگانا یہ وہ اکانومی ہے جس پر عمران خان مسلسل تنقید اورتوہین کا نشانہ بنتے ہیں اورانہیں بننا بھی چاہئے کہ میرے مالک نے شعور جیسی اعلیٰ ترین دولت ہر کسی کے مقدر میں نہیں لکھی ۔