اسلام آباد (اعتماد نیوز ڈیسک) پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ہر کوئی واقف ہے۔ 22اگست 2016کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ان کے کالم’’سحر ہونے تک‘‘میں جنرل محمد ضیا الحق اور ایٹمی پروگرام کے نام سے اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق نے اختیار سنبھالنے کے تین ماہ بعد سے ہی ایٹمی پروگرام کو اولین ترجیح دینا شروع کر دی تھیاور مہینہ میں کم از کم دو مرتبہ جنرل نقوی اور مجھ سے تفصیلی ملاقات کر تے تھے۔
ہماری کامیابیوں اور کام کی رفتار سے بے حد خوش ہوتے تھے۔ 1979کے وسط میں مغربیممالک کو ہمارے پروگرام کی بھنک پڑ گئی اور ان کو اور غلام اسحٰق خان صاحب کو بڑی فکر ہوئی کہ ایسا نہ ہو کہ سامان کی درآمد پر پابندی سے ہمارا پروگرام بند ہو جائے۔ جب میں نے ان کو بتلایا کہ میں نے اپنا ہوم ورک بہت اچھی طرح کر لیا ہے اور ہمیں قطعی کسی قسم کی رکاوٹ یا تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو وہ سن کر بے حد خوش ہوئے۔
صدر ضیا الحق اور جناب غلام اسحاق خان صاحب کو پوری طرح یہ احساس تھا کہ ہمارے پروگرام پر ملک کی سلامتی اور مستقبل کا انحصار ہے۔ اس دوران ایک ملک کا فرسٹ سیکرٹری اپنے سفیر کو لے کر (ایک پرائیویٹ کار میں) کہوٹہ کی جانب جاسوسی کی غرض سے گیا۔ جنرل ضیا اور غلام اسحاق خان صاحب نے ہمارے ڈائریکٹر سکیورٹی کو جو نہایت اعلیٰ، قابل چاق و چوبند افسر تھے، ہدایات دیدی تھیں کہ اگر کوئی کہوٹہ کی جاسوس کرتا پکڑا جائے تو اس کی اچھی طرح پٹائی کردیں۔