موجودہ انصافی جب گئے تو اسکے بعد انکا نام و نشان بھی نہیں ملے گا

    لاہور (اعتماد نیوز ڈیسک) نامور کالم نگار ایاز امیر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ نالائقی کا ایک اور دور‘ بے یقینی کا ایک اور سفر‘ ملک اور قوم پھر سے ایک بھنور میں۔ بحران اس ملک نے اتنے سہے ہیں کہ اس کی تاریخ میں بحران ہی یاد آتے ہیں۔ موجودہ حکومت لڑکھڑا رہی ہے۔

     

     

    Advertisement

    حالات اس کی گرفت سے باہر ہو چکے ہیں‘ اور اُفق پہ نظر ڈالیں تو اٹھتے طوفان ہی نظر آتے ہیں۔ دو سال اس کی مدت میں باقی ہیں‘ پورے ہو بھی جائیں پھر بھی حکومت کا دم خم ختم ہو چکا ہے۔پرانی پارٹیاں جیسی بھی تھیں عروج و زوال کے باوجود برقرار رہیں۔ اُن کا وجود قائم رہا۔

     

     

    Advertisement

    ان انصافیوں کے بارے میں ڈر ہے کہ گئے تو پھر ڈھونڈے سے نہ ملیں گے۔ مبالغے سے کام نہیں لے رہا‘ حالات کو دیکھ کے یہی خیال ذہن میں اٹھتا ہے کہ لوگ حیرت سے دیکھیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ گئے کہاں۔ ایک بات تو عیاں ہے کہ ان سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ سراسر حقیقت سے دور تھیں۔

     

     

    Advertisement

    ان لوگوں میں کچھ تھا ہی نہیں بس ایک شور اور واویلا تھا۔ پرانی پارٹیاں چلے ہوئے پٹاخے لگتی تھیں اور عمران خان کے بارے میں یہ زعم پیدا ہوا کہ قوم کو جس مسیحا کا انتظار تھا وہ یہی ہے۔ نوجوان طبقہ‘ خواتین کی ایک بہت بڑی اکثریت‘ مڈل کلاسیئے جو کبھی سیاست کے قریب نہ رہے تھے‘ ان سب نے عمران خان کو مسیحا کا درجہ دے دیا۔

     

     

    Advertisement

    ہاں‘ غیر ملکی پاکستانیوں کو بھول ہی گیا۔ اس طبقے نے تو آنکھیں بند کر کے عمران خان کے ہاتھ پہ بیعت کرلی تھی۔ آج ان لوگوں سے کوئی بات کرے تو ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں کیونکہ مسیحاپن مکمل طور پہ ایکسپوز ہو کے رہ گیا ہے۔غلطی اتنی عمران خان کی نہیں تھی۔ وہ اب تک وہی ہیں جو تھے۔ بھول ان کے مداحوں کی تھی۔

     

     

    Advertisement

    مداحوں نے ان کی ذات میں وہ کرشمات دیکھے جو سِرے سے نہیں تھے۔ کرکٹ کی کپتانی کی تو وہ کرکٹ کی کپتانی تھی۔ کرکٹ کے میدان کے جوہرکا تعلق سیاست یا حکمرانی سے کیا بنتا تھا؟ لیکن آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اور عقلوں کو تالے لگا کر مداحوں نے کرکٹ کی کارکردگی کو ہر شے سے جوڑ دیا۔ اس میں عمران خان کی کیا غلطی تھی؟

     

     

    Advertisement

    وہ اب بھی وہی ہیں جو تھے۔ مزاروں سے خاص ایک شغف تھا‘ اب بھی ہے۔ معلومات اور نالج اُن کی ہمیشہ سطحی قسم کی رہی ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔سزا ملی تو اس قوم کو جس کو ایک تجربہ بھگتنا پڑا۔ اور خاص شرمندگی ہمارے اُن اکابرین کو ہوئی جن کا فیصلہ سازی میں کلیدی حصہ رہتا ہے۔ اکابرین کے طبقے میں بھی یہ خیال اُٹھا تھا کہ پرانی پارٹیاں نالائقوں کا ٹولا ہیں اور نالائقی کے اوپر وہ چور بھی ہیں۔

     

     

    Advertisement

    اس لئے ناگزیر ہو چکا ہے کہ ایک نیا تجربہ کیا جائے اور ایک نئے آدمی کو آزمایا جائے۔ تین سال اس تجربے کو ہو چکے ہیں اور قوم کو بہت مہنگے پڑے ہیں۔

     

     

    Advertisement

    آپ مجموعی طور پر دیکھ لیجئے‘ سوچ یا سمجھ کا شائبہ تک آپ کو نہیں ملے گا۔ لیکن قوم کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں دے دی گئی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ڈھنگ کی کوئی چیز بھی ان سے نہیں ہو پا رہی۔ اور اب تو ہر طرف سے ستائے ہوئے عوام کا شور ہے اور احتجاج نہیں تو بیزاری کے بادل آسمان پہ چھائے ہوئے ہیں۔رونا ان کی نالائقی پہ نہیں۔

     

     

    Advertisement

    ستم تو قوم کے نصیب کے حوالے سے ہے۔ اب تو ہم سب کچھ آزما چکے‘ پرانی پارٹیوں کو اور اب ان مسیحوں کو۔ اکابرین نے بھی اپنے وقتوں میں اپنی باریاں لگائیں۔ وہ بھی ہم بھگت چکے ہیں۔ اب ان موجودہ کے دو سال پورے ہوں یا مختصر ہو جائیں‘ ہمارے سامنے متبادل کیا ہے؟ کیا کوئی مزید تجربوں کی گنجائش رہ گئی ہے؟ پرانی پارٹیاں ناکام‘ یہ نیا تجربہ ناکام‘ اکابرین کے کارنامے بھی ہم دیکھ چکے۔

     

     

    Advertisement

    پھر رہ کیا گیا ہے؟ یہ کہتے ہوئے دل میں خوف اُٹھ رہا ہے کہ بس تالبان ہی رہ گئے ہیں۔ کیا اُن کو اب آزمایا جائے؟ یا اُن قوتوں کو جو چوکوں اور شاہراہوں پہ دھرنا دینے کی ماہر بن چکی ہیں؟ یعنی اب افغانستان یا اُس سے ملتا جلتا ماڈل ہی رہ گیا ہے۔بائیس کروڑ عوام اور اُن کا یہ حال۔

     

     

    Advertisement

    ایسا قحط الرجال۔ ہم کہتے نہیں تھکتے کہ قوم بڑی باصلاحیت ہے۔ مبالغے سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دھرتی کو آسمانوں نے ہرچیز سے نوازا ہے۔ مبالغے کو ہضم کر بھی لیا جائے سوال پھر اٹھتا ہے کہ قوم اگر اتنی باصلاحیت ہے تو اُس کے نصیب میں اتنے نکمے حکمران کیوں لکھے گئے ہیں؟ لیڈروں نے اپنی قوموں کی تقدیریں بدلی ہیں۔

     

     

    Advertisement

    یہ صرف تاریخ کے واقعات نہیں اپنے سامنے ہم نے یہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ سنگاپور‘ ملائیشیا‘ جنوبی کوریا ہم سے پیچھے تھے۔ کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم کہاں پیچھے کی طرف پھسلتے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ دبئی وغیرہ کا درجہ کسی ماہی گیری کے گاؤں کے برابر تھا۔ شیخ زید وغیرہ سیروتفریح کیلئے پاکستان آیا کرتے تھے۔

     

     

    Advertisement

    آج دبئی کہاں پہنچ چکا ہے اور ہم فرسودہ خیالات کے شکار کن دلدلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔کتنا ماتم کیا جائے؟ رونے کی بھی حد ہوتی ہے۔ اب جس نالائقی کے بحران میں ہم جا چکے ہیں اس کا اختتام کیا ہو گا؟ اس سے نکلے گا کیا؟ خوف اس بات سے آتا ہے کہ جہاں دیکھیں درمیانے قد کے آدمی نظر آتے ہیں۔ سیاست کو چھوڑیں اکابرین کو دیکھ لیں۔ ان میں کون سا اونچے قد کا آدمی دکھائی دیتا ہے؟

     

     

    Advertisement

    ظاہر ہے یہاں قد کی بات محاورتاً ہو رہی ہے۔ قدآور لمبائی کے حوالے سے نہیں صلاحیتوں کے حوالے سے۔ مغربی سرحد پہ آئے روز کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے جس میں ہمارے فوجیوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے‘ یعنی مغربی بارڈر ایک بار پھر سلگ رہا ہے۔ معیشت کا حال ہم جانتے ہیں۔ اس حکومت کا کارنامہ ہے کہ ہر پاکستانی کو اس نے معاشی ایکسپرٹ بنا دیا ہے کیونکہ ہر کوئی مہنگائی کا رونا رونے پہ مجبور ہو گیا ہے۔

     

     

    Advertisement

    حکومت کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مکمل طور پہ سوچ سے عاری ہے۔ معاشرہ ایسا بن چکا ہے کہ جو عیاشیوں کی توفیق رکھتے ہیں اُن کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ جو بے بس و لاچار ہیں اُن کی بے بسی کی کوئی انتہا نہیں۔ ایسے غیر منصفانہ معاشرے کی تشکیل پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اوپر سے موجودہ وزیر اعظم کو واعظ و نصیحت سے فرصت نہیں ملتی۔ اپنا کام ہوتا نہیں قوم کی اخلاقیات کی ان کو پڑی ہو ئی ہے۔بیزاری حدوں سے پار ہو رہی ہے۔

     

     

    Advertisement

    احتجاج کی آواز بھی زور نہیں تو ہلکی سی اُٹھ رہی ہے۔ اس صورتحال کا حل کیا ہے‘ کسی کو نہیں معلوم۔ پرانی پارٹیاں بس یہ چاہتی ہیں کہ یہ موجودہ جائیں اور ان کی جگہ ماضی اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرائے۔ اکابرین کی سوچ بالکل خالی ہے۔ حالات سے ڈرے ہوئے ضرور ہیں لیکن کیا ہو گا یا کیا ہونا چاہئے اس کی خبر اُن کو بھی نہیں۔ رہ گئے عوام تو اُن کے ارمان ہمیشہ کی طرح سلگ رہے ہیں۔ امید کی کرن وہ کیا دیکھیں گے۔

     

     

    Advertisement

     

    نوٹ: یہ کالم نگار  کی ذاتی خیال ہے، جس کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ ادارے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ رائے ان کی ذاتی ہے۔

     

    Advertisement