لاہور ( اعتماد ٹی وی) اکثر لوگ اس بارے میں ابہام مبتلا ہوتے ہے کہ بنک کی طرف سے ڈیبٹ کارڈ ملنے والی ڈسکاؤنٹ حلال ہے ی حرام؟
لاہور ( اعتماد ٹی وی) اکثر لوگ اس بارے میں ابہام مبتلا ہوتے ہے کہ بنک کی طرف سے ڈیبٹ کارڈ ملنے والی ڈسکاؤنٹ حلال ہے ی حرام؟
تو اس بارے میں، مفتی قاسم عطاری ڈیبٹ کارڈ پر ملنے والے ڈسکاؤنٹس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بنک میں ہمارے پیسے ایک قرض کی مانند محفوظ ہوتے ہیں اور اس کے اوپر ہمیں کچھ ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔
یہ ڈسکاؤنٹ بنک کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور کسی دکان یا ریسٹورنٹ کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے، جیسے کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے گئے اور اگر ریسٹورنٹ والے نے ہمیں ڈسکاؤنٹ دیا تو یہ معاملہ اس ریسٹورنٹ والے کا ہے،
نہ ہم نے اس سے ڈسکاؤنٹ کی درخواست کی نہ ہی اس سے ڈسکاؤنٹ مانگا، تو یہ اس کی مرضی تھی کہ اس نے ہمیں ڈسکاؤنٹ دیا چاہے وہ ہمیں مفت ہی کھلا دیتا۔
دوسری بات ہے کہ بنک ڈسکاؤنٹ دے، اب ہمارا قرض ہے بنک میں اور اگر بنک ہمیں ڈسکاؤنٹ دیتا ہے تو ظاہری اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ یہ قرض پر نفع ہے،
لیکن قرض پر وہ نفع حرام ہوتا ہے جو لیتے وقت طے کیا جائے۔ کہ ہم آپ کے بنک میں اکاؤنٹ کھلوا رہے ہیں تو یہ شرط رکھی کہ اتنا اتنا نفع ملنا چاہئے یا ڈسکاؤنٹ ملنا چاہئے تواگر اس صورت میں نفع ملنے لگ جائے تو وہ حرام ہوگا۔
لیکن عام طور پر بنک ریسٹورنٹس پر ڈسکاؤنٹس دیتا ہے اور یہ ڈسکاؤنٹس اگریمنٹ میں نہیں ہوتا بنک کبھی کبھار دیتا ہے اس لئے یہ حرام نہیں۔