یوکرینی صحافی کا برطانوی وزیر اعظم سے سوال؟
آن لائن (اعتماد ٹی وی) روس و یوکرین کے مابین تنازع تاحال جاری ہے دونوں ممالک میں سے کوئی بھی مذاکرات کے ذریعے حل نہیں نکالنا چاہ رہا۔ کوئی بھی ملک آگے بڑھ کر مدد نہیں کررہا۔
یوکرینی صحافی کا برطانوی وزیر اعظم سے سوال؟
آن لائن (اعتماد ٹی وی) روس و یوکرین کے مابین تنازع تاحال جاری ہے دونوں ممالک میں سے کوئی بھی مذاکرات کے ذریعے حل نہیں نکالنا چاہ رہا۔ کوئی بھی ملک آگے بڑھ کر مدد نہیں کررہا۔
حال ہی میں یوکرینی صدر نے ویڈیو پیغام جاری کیا کہ ہمیں اس تنازع میں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے مدد کا کہہ کر بھی ہماری مدد کو کوئی نہیں آیا لیکن ہم جھکیں گے نہیں ، نہ ہی کہیں بھاگیں گے ، ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ یوکرین کےصدر کی جانب سے جاری کئے گئے اس پیغام میں یوکرینی وزیراعظم بھی ساتھ تھے۔
حال ہی میں پولینڈ میں برطانوی وزیر اعظم کے میڈیا انٹرویو کے دوران یوکرینی صحافی نے سوال اُٹھائے تو برطانوی وزیراعظم سے جواب دینا مشکل ہو گیا۔ یوکرینی صحافی نے کہا کہ یورپ نے یوکرین کی جانب سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ کوئی بھی آگے نہیں بڑھ رہا ۔
اور دونوں ممالک کا یہ تنازعہ تیسرا عالمی تنازع کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوکرینی صحافی ڈاریا کالینیوک نے مزید کہا کہ جس تنازعہ کے خطرے سے نیٹو نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں اُس کا آغاز تو ہو چکا ہے۔
آج ہم اس کی خمیازہ بھگت رہے ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا۔ تمام تر ممالک کی جانب سے روس پر پابندیاں لگانے کی بات ہو رہی ہے آپ بھی پابندیاں لگا رہے ہیں لیکن ان پابندیوں سے کیا ہو گا ۔ روسی بزنس مین تو ان سے بر ی الذمہ ہو نگے ۔
یوکرین کا بچہ بچہ روس کے وار برداشت کر رہا ہے لیکن روسی وزیراعظم و صدر کے بچے کو تو روس میں موجود نہیں ،ان کے بچے تو اس حالات کی آوازیں نہیں سن رہے ایسے ماحول کو نہیں دیکھ رہے۔ کسی کے بچے لندن میں ہیں تو کسی کے جرمنی میں ۔
روسی صدر کے پوتے نیدرلینڈ میں ہیں یا پھر اپنے محلوں میں موجود ہیں ۔ آپ کی پابندیوں سے کیا وہ محل ضبط کر لئے جائیں گے ؟
ڈاریا کالینیوک نے مزید بات جاری رکھتے ہو ئے سوال کیا کہ میں اپنے لوگوں کو دیکھ رہی ہوں اپنے ٹیم کے افراد کو دیکھ رہی ہوں جو کہ روتے نظر آتے ہیں مجھے نہیں سمجھ آرہا کہ میں اپنے خاندان کو یوکرین سے بحفاظت کیسے نکالوں ۔
کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے۔ یوکرین میں موجود تمام افراد اس مشکل حالات کو بھگت رہے ہیں ۔
برطانوی وزیر اعظم نے تمام تر بات تحمل سے سنی اور ڈاریا کالینیوک یوکرینی صحافی کی ہمت کی داد دیتے ہوا کہا کہ مجھے خوشی ہے آپ پولینڈ تک پہنچی ہیں اور اپنی آواز کو ایوان بالا تک پہنچایا ۔
لیکن میں آپ کو ایک سچ سے روبرو کروا دو ں کہ ہم بھی بے بس ہیں ۔ یوکرین ہم سے جیسی مدد کی توقع رکھتا ہے مجھے افسوس ہے کہ ہم اس طرح کی مدد نہیں کر سکتا ہیں ۔
آپ کو بتاتے چلے کہ یوکرین نے جس پر بھروسہ کر کے روس سے پنگا لیا تھا اب وہ ممالک ہی چھپتے نظر آرہے ہیں ۔