Skip to content
- Home
- سور کے دل سے 2 ماہ تک زندہ رہنے والا 57 سالہ شخص انتقال کر گیا تاہم وجہ سامنے نہیں لائی گئی
آن لائن ( اعتماد ٹی وی ) قریباً دو ماہ قبل ڈاکٹروں نے کامیاب تجربہ کیا ایک معذور شخص جو کہ بہت بیمار تھا ، اس شخص نے اپنی باقی زندگی کو میڈیکل تجربات کے لئے وقف کر دیا ۔ ڈاکٹرز نے اس شخص کے جسم میں ایک سور کا دل ٹرانسپلانٹ کرنے کا تجربہ کیا جو کہ کامیاب رہا ۔
دوماہ زندہ رہنے کے بعد اس شخص کا انتقال ہو گیا ۔ ڈیوڈ بینٹ دو ماہ سے میری لینڈ میڈیکل سنٹر میں زیر نگہداشت تھے۔ ڈاکٹرز ان کی روزمرہ کی حالت کو جانچا جا رہا تھے ۔
دل کی ترسیل کے بعد دو ماہ تک زندہ رہ کر ڈیوڈ بینٹ نے ایک تاریخ رقم کر دی۔ اس تجربے کے مثبت نتائج سامنے آئے اور ڈاکٹر اور زیادہ پر امید ہو گئے البتہ میری لینڈ میڈیکل سنٹر کی جانب سے ڈیوڈ کے انتقال کی وجہ نہیں بتائی جا رہی ۔
جانوروں کے اعضاء کی کامیاب ترسیل کے بعد سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ میڈیکل فیلڈ کا یہ کامیاب تجربہ تھا جب کسی شخص کے جسم میں کسی جانور کے اعضاء لگائے گئے۔ عموماً انسانی جسم جانوروں کے اعضاء کو قبول نہیں کرتا ۔
لیکن ڈاکٹرز نے اس کے لئے ایسے سور کا انتخاب کیا جس پر پہلے ہی ایک جنیاتی تجربہ کیا جا چکا تھا۔ ڈاکٹر محمد محی الدین نے بتا یا کہ اس تجربے کی مدد سے ہمیں اس بات کا پتہ چلا کہ ایسے جانور جن کو جنیاتی تجربات سے گزارہ جا چکا ہو ان کے اعضاء بالخصوص دل انسانی جسم میں بہتر کام کر سکتا ہے ۔
شروعات میں بینٹ ڈیوڈ میں موجود سور کے دل نے آہستہ آہستہ کام کرنا شروع کیا اور پھر ان کی حالت بہتری آنا شروع ہوئی۔ مشاہدات کی ویڈیوز میں ڈیوڈ کو ان کے تھراپسٹ کے ساتھ تھراپی کرتے دیکھایا گیا ہے ۔
میری لینڈ میڈیکل سنٹر کے اس تجربے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں جانوروں کے اعضاء کی ترسیل غیر قانونی ہے۔ تاہم اپنی نوعیت کا یہ ایک انوکھا اور حیرت انگیز کارنامہ ہے ۔
تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام میں سور کو سب سے بد تر جانور سمجھا جاتا ہے اور اس کا نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔
لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جانوروں کے اعضاء سے اگر انسانی جان کو بچایا جا سکتا ہے تو یہ انسانیت کے لئے بہت بڑی اقدام ہو جس سے انسان کو بیماری سے بچے سے اور ھی ذرائع مل جائینگے ۔
ابھی تک کسی بھی اسلام کے فرقے کی طرف سے اس بارے میں بیان یا فتوی سامنے نہیں آیا کہ اس طرح جانوروں کے اعضا کو انسانی جسموں میں ٹرانسپلانٹ کر کے جان بچائی جا سکتی ہیں یا نہیں؟
اس کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ کونسے جانوروں کے اعضاء استعمال کئے جا سکتے ہیں اور کس حد تک کئے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ انسانیت کے لئے سائنس کی بہت بڑی خدمت ہو گی اگر جانوروں کے اعضاء سے انسانی جانیں بچائی گئئ ۔