چھوٹے قد کے انسانوں کی موجودگی کا انکشاف۔
چھوٹے قد کے انسانوں کی موجودگی کا انکشاف۔
لاہور (اعتماد ٹی وی) اللہ تعالیٰ نے دنیا میں طرح طرح کے مخلوقات بنائی ہیں جن میں کچھ کو انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے اور کچھ کو نہیں ۔ اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت درپیش ہے ۔
یہ تو انسانوں کو پتا ہے کہ ایک میں انسانوں کی عمر تقریباً 1000 سال سے زائد تھیں اور قد 60 فٹ تک ہوتے تھے ۔ اس طرح آج بھی کئی قبریں تاریخی ورثہ میں شامل ہیں جن کی لمبائیاں 9 گز ہیں ۔
اسی طرح بونے انسانوں کے متعلق بھی بات تو ہوتی ہے لیکن کسی کے پاس کوئی ٹھوس حقیقت موجود نہیں ہے لیکن جو لوگ اس پر ریسرچ کرتے ہیں انھوں نے اس کا انکشاف کیا ہے ۔ اس کا پہلا ثبوت ایک داڑھ ہے جو کہ 9 ملی میٹر کی تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں بونے انسان واقعی موجود رہے ہیں ۔
اس کے ثبوت فلورس جزیرے پر موجود ہیں جو کہ انڈونیشیا میں واقع ہے ۔ یہاں وہ آرکیالوجسٹ سائیٹ موجود ہے ، جہاں سے ماہرین کو انتہائی چھوٹی کھوپڑیاں بھی ملی ہے ۔
ان کا قد 3 فٹ رہا ہو گا ۔ سائنسدانوں نے اس چھوٹے قد کی وجہ سے اس کا نام ہوبٹ رکھا ہے۔ ان کے جبڑے اور دانت بھی انتہائی چھوٹے تھے ۔ اس کی وجہ سائنسدانوں نے خیال کیا کہ یہ کسی اور جد سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ان کے دانت ہوموارکٹس جیسے نظر آتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کا تعلق انسانی ارتقاء کے قریب نظر آتا ہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق ان کو شاید غذائی قلت درپیش تھی اس لئے ان کا دماغ و جسم انتہائی تیزی سے سکڑا ۔ اس کے باوجود ان کے چلنے پھرنے میں جھکاؤ نہیں تھا یہ سیدھا چلتے تھے اور ٹولز بنایا کرتے تھے ۔
گریگری فورتھ نامی پروفیسر نے یہ دعویٰ کرکے سب کو حیران کر دیا ہے کہ اب بھی یہ ہوبٹس ہم میں موجود ہیں لیکن وہ اس کے ثبوت فراہم نہیں کر سکے ۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ کردار جن دیومالائی داستانوں کا حصہ مانا جا تا ہے حقیقی وجود رکھتے تھے ۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے پچاس ہزار سال قبل یہ موجود تھے ۔ انسان کی پیدائش کے قریب قریب ان کا وجود ختم ہوا ۔
12 ہزار سال قبل تک یہ ناپید ہو چکے تھے ۔ لیکن اس اعداو شمار کو ابھی صحیح نہیں کہا جا سکتا ۔ اب تک 9 ہوبٹس کے نامکمل ڈھانچے ملے ہیں ۔ اور اس پر ریسرچ کے لئے جدید طریقوں کی ضرورت ہے ۔
تاہم ابھی تک سائنسدانوں یا کسی ریسرچ ادارے کی طرف سے اس بات کی تصدیق بمعہ ثبوت نہیں کی گئی ہیں کہ کیا واقعہ ایسے کوئی لوگ موجود تھے یا ہیں ۔
لیکن یہاں پر اس بات کو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا ہے کیونکہ سائنسدانوں اور تحقیق دانوں کو ملنے والے شواہد کافی حد تک اس بات کی تائید کرتے ہیں ایسے کوئی لوگ موجود تھے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ موجود ہو ۔