ہیر رانجھے کےشاعر وارث شاہ تاریخ کے آئینے میں
وارث شاہ کو زیادہ ہیر وارث شاہ سے جانا جاتا ہے ۔
جھنگ ( اعتماد ٹی وی ) پنجاب کے ورثے کی کہانی ہیررانجھا جو کہ محبت بھری کہانی تھی جس کا انجام اچھا نہیں ہوا ۔ آج بھی جھنگ میں ہیر رانجھے کامقبرہ موجود ہے جہاں پر لوگ جا کر منتیں مانتے ہیں ۔ اس مقبرہ کی چھت نہیں بنائی گی جبکہ چار دیواری تعمیر کی گئی ہے ۔
وارث شاہ پنجاب کے قصبہ جندیالہ شیر خان جو کہ شیخوپورہ سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ان کی تاریخ پیدائش 5 ربیع الاثانی 1130 ہجری یعنی 1718 عیسوی بتائی جاتی ہے ۔ ان کے والد کا نام شیر شاہ تھا ۔ کم عمری میں ہی حضرت مولانا غلام مرتضیٰ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بابا بُلھے شاہ کے ہمراہ اُن سے تعلیم حاصل کی ۔
دنیاوی علم کے حصول کے بات باطنی علم کے لئے خواجہ فرید گنج شکرؒ کے خاندان میں بیعت کی ۔ جب ان کی ہیر وارث شاہ کے متعلق ان کے اُستاد مولانا غلام مرتضیٰ کو معلوم ہوا تو وہ ناراض ہوئےکہ بُلھے شاہ نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجانا شروع کی اور تم نے ہیر لکھ ڈالی ۔
آپ کو س ز ا کے طور پر حجرے میں بند کر دیا گیا جب اگلے دن آپ کو کتاب پڑھنے کو کہا اور آپ نے کتاب پڑھی تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے لائق تھی ۔ اور فرمایا کہ وارث تم نے تو تمام جواہرات منجھ کی رسی میں پرو دیے ہیں ۔
سید وارث شاہ ایک درویش صوفی شاعر ہیں ان کا دور رنگیلا کے دور سے لے کر احمد شاہ ابدالی کے دور تک ہے ۔ ان کو پنجابی زبان کا شیکسپئیر سمجھا جاتا ہے انہوں نے پنجابی کی تدوین و ترویج میں اہم کردا ر ادا کیا ہے ۔ وارث شاہ کی پیدائش کی تاریخ اور وفات کی تاریخ کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
وارث شاہ کی نجی زندگی سے متعلق بھی کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں ہیں ۔ وارث کی ہیر کے علاوہ انہوں نے معراج نامہ اور دوہڑے بھی تحریر کیے ۔
افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 10 محرم الحرام 1220 ہجری میں وفات پائی ۔