آپ کو بیٹھے بیٹھے کیا تکلیف ہیں؟ جاوید احمد غامدی نے ثنایہ مرزا کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر انوکھا منطق دے کر سب کو حیران کر دیا۔
اعتماد ٹی وی! پاکستان کے مشہور اسلامی سکالر جاوید احمد غامدی نے ایک ٹاک شو میں بھارت کی مشہور ٹینس پلئیر ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں پوچھنے جانے والے سوال میں انوکھا جواب دے کر سب کو پریشان کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق، جب جاوید احمد غامدی سے ثانیہ مرزا کے لباس کے بارے میں جاری کردہ فتوی کے بارے میں سوال کیا گیا، جن میں یہ فتوی دیا گیا کہ ثانیہ مرزا جس لباس کے ساتھ ٹینس کھیلتی ہے وہ لباس غیر شرعی ہے، اس پر غامدی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کو اس بارے میں کیا تکلیف جب وہ بندہ میرے پاس خود چل کر آئے گا تو اس کا جواب اسی کو دو گا۔
انہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے، بھارت کے مشہور مذہبی اسکالر مولانا وحید الدین خان صاحب کا واقعہ بتایا۔ غامدی صاحب نے بتایا کہ خان صاحب کو ہندوستان کے ایک چینل نے لائیو شو میں بُلایا اور سوال پوچھا کہ مولانا مختلف مولویوں اور مدرسوں نے فتوی دے دیا ہے کہ ثانیہ مرزا کا لباس غیر اسلامی ہے تو آپ کی کیا رائے ہیں؟
تو اس پر مولانا وحید الدین نے جواب دیا کہ “ثانیہ مرزا تو مجھ سے پوچھنے نہیں آئی” جب وہ میرے پاس آئی گی تو میں اس سے بات کر لو گا۔
غامدی صاحب نے کہا کسی شخص کو کوئی حق نہیں ہوتا کہ وہ کسی پر کوئی رائے قائم کرے جب تک وہ خود آ کر اپنا معاملہ پیش نا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ کواللہ نے قاضی بنا کر بھیجا ہے کہ آپ ہر ایک کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔
In a surprising turn of events, renowned Islamic scholar Javed Ahmed Ghamdi challenged the idea of issuing religious rulings on people’s clothing choices, particularly in the case of tennis star Sania Mirza. During a talk show, when questioned about the fatwas condemning Mirza’s attire, Ghamdi’s response left many confused.
He argued that it’s inappropriate to judge someone without understanding their situation and that such rulings should only be addressed if the person themself seeks guidance. This approach, similar to that of Maulana Wahiduddin Khan who refused to comment on Mirza’s dress until she approached him directly, sparked discussions about personal responsibility and the boundaries of religious authority on social media.