بصرہ کی ایک عورت جس کا نام شہوانہ تھا جو بہت گناہگار تھی۔ عالم یہ تھا کہ جب لوگ سنتے کہ شہوانہ کا گُزر یہاں سے ہوا ہے تو وہ راستہ تبدیل کر لیتے۔ اُس راستے سے گُزرتے تک نہ تھے۔
بصرہ کی ایک عورت جس کا نام شہوانہ تھا جو بہت گناہگار تھی۔ عالم یہ تھا کہ جب لوگ سنتے کہ شہوانہ کا گُزر یہاں سے ہوا ہے تو وہ راستہ تبدیل کر لیتے۔ اُس راستے سے گُزرتے تک نہ تھے۔
اس حد تک اُس سے خوف زدہ تھے کہ کہیں اُس کی نحوست ہم پر نہ پڑ جائے۔ یا کسی نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے ہمیں دیکھ لیا تو ہماری عزت پر حرف نہ آجائے۔ پورا شہر اُس کی بدنامی کے چرچے کرتا تھا۔
ایک دن وہ عورت اپنی کنیزوں کے ساتھ گھر سے نکلی تو اُس نے قبر اور حشر کے متعلق خطاب سنا۔خطاب میں موجود لوگ گِریہ زاری کر رہے تھے، اُس نے بھی رُک کر پردے میں سے وہ خطاب سنا۔
اور خطاب سنتے سنتے اُس کا بھی حال وہاں موجود لوگوں جیسا ہو گیا۔ اُس کے آنسو نہ رُکے۔ اُس نے خطاب کرنے والے شخص سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
جب وہ خطیب تشریف لائے تو شہوانہ نے پردے میں اُن سے سوال کیا کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟
جواب ملا کہ ہو سکتی ہے۔ دوبارہ سوال کیا کہ میرے گناہ زمین سے آسمان تک ہیں تب بھی میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ جواب ملا کہ ہو سکتی ہے۔ اُس نے بولا کہ میں بہت زیادہ گناہگار ہوں تب بھی میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ جواب ملا کہ چاہے تو بصرہ کی شہوانہ ہی کیوں نہ ہوں، تو معافی مانگ تیری توبہ قبول ہو گی۔
بولی میں بصرہ کی شہوانہ ہی ہوں تو انھوں نے فرمایا رب کی رحمت کو پُکار، رب تجھے نااُمید نہیں کرے گا۔ اُس نے اپنی تمام کنیزوں کو آزاد کیا، مال ودولت اسلام کی راہ میں خرچ کیا۔
چالیس دِنوں میں اللہ نے اُس کی زندگی کو یوں تبدیل کیا کہ جو لوگ اُس سے بھاگتے تھے وہی پُکارنے لگے کہ وقت کے ولیوں کو دیکھنا ہے تو شہوانہ کو دیکھیے۔