رجب کے کونڈوں کو لے کر مختلف فرقوں کے لوگ مختلف باتیں بتاتے ہیں۔ لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
رجب کے کونڈوں کو لے کر مختلف فرقوں کے لوگ مختلف باتیں بتاتے ہیں۔ لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا اسحاقؒ نے اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ ان سب باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 22 رجب کے دن کے متعلق بہت سی باتیں گردش کرتی ہیں۔ کسی کے مطابق اس دن حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تھی اور کسی کے مطابق یہ اُن کی وفات کا دن ہے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔
اس بات سے متعلقہ نہ ہی کوئی روایت ملی ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کا تذکرہ ہے۔ یہ سب لوگوں کی خودساختہ باتیں ہیں جن کے مطابق وہ لوگ اس دن نذرو نیاز کرتے ہیں۔ کچھ کے مطابق وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا جشن مناتے ہیں۔ کسی کے مطابق اُ نکی پیدائش کا۔
مولانا اسحاق کہتے ہیں کہ یہ کُونڈے کہیں بھی ثابت نہیں ہوئے ۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ایک تاریخی واقعہ ہے شعیوں کی نظر میں وہ اچھے لوگوں میں شمار نہیں ہوتے تھے اس لیے وہ اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں۔ لیکن اس کی حقیقت کچھ نہیں ہے۔
کونڈے کا لفظ ہندی لفظ ہے جو کہ امیر مینائی شاعر نے نکالا۔ انھوں نے معجزہ مصحف ناطق بنایا, جس کے بعد سے یہ رسم چل پڑی اور ایک جھوٹی نظم، جھوٹا قصہ جو کہ ایک لکڑ ہارے کے متعلق تھا وہ لکھ کر دنیا کو اس کام پر لگا دیا، اب کونڈوں کے دن اس قصے کو بھی پڑھا جاتا ہے۔
مفتی عنایت علی مرحوم کی زندگی کا ایک واقعہ مولانا اسحاق نے بیان کیا کہ اُن کی ریاست کے امیر بھی کونڈوں کی نیاز دلاتے تھے تو ان کے ایک شخص نے کونڈوں کی حقیقت کے متعلق استفسار کیا میں نے بتایا کہ یہ کوئی حقیقت نہیں اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں، اس پر وہ امیر آگ بگولہ ہو گئے اور میں نے اُس جگہ سے رخت سفر باندھ لیا لیکن اللہ نے میری نیت کو قبول کیا اور مجھے عزت دلائی کہ امیر کے ایک بزرگ نے اُن پر لعن تعن کی کہ عالم وہی ہے جو ہمیشہ سچ بولے ، ایسے عالم کے ہونے کا کیا فائدہ جو آپ کی ہاں میں ہاں ملائے۔