اسرائیلی روایت کے مطابق مالک الموت سے اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ کیا کبھی آپ کو کسی شخص کی روح قبض کرتے وقت تکلیف محسوس ہوئی یا کسی پر ترس آیا؟
اسرائیلی روایت کے مطابق مالک الموت سے اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ کیا کبھی آپ کو کسی شخص کی روح قبض کرتے وقت تکلیف محسوس ہوئی یا کسی پر ترس آیا؟
تو انھوں نے جواب دیا کہ دو لوگ ایسے تھے جن کی روح قبض کرتے وقت مجھے اُن پر ترس آیا۔ ان پر رحم آیا۔
ایک اسوقت جب ایک کشتی دریا میں ٹوٹ گئی کشتی کے تختے پر موجود ایک عورت نے اپنے سینے سے نومولود بچہ لپٹایا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کر لو۔ تو مجھے اُس بچے پر بہت ترس آیا کہ اللہ نے ماں کی روح قبض کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ بچے کی نہیں تو بچے کا کیا ہو گا۔ وہاں میرے دل میں رحم آیا۔
دوسرا اُس وقت جب شداد نے تمام زندگی کی کمائی خرچ کر کےاپنی جنت تیار کی جس میں خوبصورت باغات لگائے وہاں دنیا بھر کی خوبصورت لڑکیاں بطور حوریں رکھیں۔ جب اُس نے تمام جادو گریاں آزمالیں اس جنت کو تیار کرنے میں، جب وہ جنت مکمل ہوئی اور وہ اُسے دیکھنے کے لئے آیا تو اللہ کا حکم ہوا کہ اس کی روح قبض کر لو جب اس کا ایک پیر جنت کے دروازے میں تھا اور دوسرا پیر باہر تھا۔ حکم ربی تھا کہ یہ اپنی جنت میں داخل بھی نہ ہونے پائےتو مجھے اُس وقت اُس پر رحم آیا اور میرے دل میں خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کی موت میں چند لمحوں کی تاخیر کرلیتے تو وہ اپنی جنت دیکھ لیتا۔ کہ ساری زندگی جو کمایا جو لگایا تو اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی لیتا۔
اسرائیلی روایت کے الفاظ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے پتہ ہے یہ شداد کون ہے مالک الموت نے عرض کی “کون ہے” فرمایا یہ وہی نومولود بچہ ہے جس کی ماں بیچ دریا کے مر گئی تھی ۔ جس بچے پر تمہیں رحم آیا تھا کہ اس کا سہار کون بنے گا ؟ اللہ نے اس کو دریا سے بچایا،اسکو زندگی دی۔ جب یہ تندرست ہوا تو اللہ کے ہی خلاف ہو گیا۔ یہ وہی بچہ ہے جس کو ماں کی آغوش میسر نہ ہوئی جس کو رب نے پالا تھا اور یہ رب کے خلاف ہی کھڑا ہو گیا۔ اس لئے اس کو سزا کے طور پر اپنی ہی تیار کردہ جنت دیکھنے کی مہلت نہ ملی۔