ایک مرتبہ ایک بزنس مین ایک فیکٹری کے لئے زمین دیکھنے ایک گاؤں میں گیا۔ گاؤں کے راستے میں ایک ندی تھی بزنس مین نے سوچا اگر میں اپنی گاڑی میں گھوم کر جاؤں تو لمبا راستہ ہو گا اور وقت بھی زیادہ لگے گا اس لئے اُس نے کار چھوڑ کر ایک کشتی میں سفر کا سوچا۔
ایک مرتبہ ایک بزنس مین ایک فیکٹری کے لئے زمین دیکھنے ایک گاؤں میں گیا۔ گاؤں کے راستے میں ایک ندی تھی بزنس مین نے سوچا اگر میں اپنی گاڑی میں گھوم کر جاؤں تو لمبا راستہ ہو گا اور وقت بھی زیادہ لگے گا اس لئے اُس نے کار چھوڑ کر ایک کشتی میں سفر کا سوچا۔
کشتی میں ایک ملاح موجود تھا۔ بزنس مین نے اُس کو پوچھا کہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ ملاح نے نفی میں جواب دیا۔ بزنس مین بہت حیران ہوا کہ میری روز تصویر اخبار میں آتی ہے تم نے دیکھی نہیں کبھی؟ ملاح نے جواب دیا کے میں غریب گھرانے سے ہوں اور والد کی وفات کے بعد میں روزی روٹی کی فکر میں مبتلا ہو گیا اس لئے سکول نہیں جا سکا اور پڑھنا لکھنا نہ سیکھ سکا۔
جس پر بزنس مین نےملاح کا مذاق اُڑایا کہ ان پڑھ آدمی کی زندگی کا کیا فائدہ، ملاح کو یہ سن کر بہت بُرا لگا پر وہ خاموش رہا۔ پھر بزنس مین نے ملاح کو ندی کے پار زمین کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہاں کچھ ہی عرصے میں پانی کی بوتلیں بنانے والی فیکٹری لگے گی جو شہر میں بہت بکتی ہیں۔
ملاح نے جواب دیا کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں ہے کیونکہ میں کبھی شہر نہیں گیا اس پر ملاح بہت زیادہ حیران ہوا اور ملاح کا دوبارہ مذاق اُڑاتے ہوئے بولا ایسی زندگی کا کیا فائدہ کہ تم نے شہر ہی نہیں دیکھا، اتنا سن کو ملاح کو لگا کہ واقعی اُس کی زندگی بے کا ر ہے۔ ملاح ان کی سوچوں میں غرق تھا کہ اس کا دھیان کشتی سے ہٹ گیا اور کشتی پتھر سے ٹکرا گئی کشتی میں کافی پانی بھر گیا۔
جب ملاح کو اندازہ ہو گیا کہ کشتی نہیں بچ سکتی تو اس نے بزنس مین سے پوچھا کہ آپ کو تیرنا آتا ہے؟ بزنس مین نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا نہیں تم ایسا کیوں پوچھ رہے ہو؟ تو ملاح بولا ایسی زندگی کا کیا فائدہ جس میں آپ کو تیرنا ہی نہ آتا ہو۔ یہ سن کر بزنس مین بہت شرمندہ ہوا اور ملاح سے غلطی کی معافی مانگی اور بولا کہ میری جان بچا لو میں تمہیں منہ مانگی قیمت ادا کروں گا۔ ملاح نے کہا کہ مجھے صرف کشتی چلانا ہی نہیں آتا بلکہ ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانا بھی آتا ہے آپ مجھے مضبوطی سے پکڑ لیں۔ میں آپ کو کنارے پہنچا دوں گا۔ اس طرح اس ملاح نے اپنی اور بزنس مین کی جان بچائی۔
اس واقعے سے ایک نصیحت حاصل ہوتی ہے کسی کو بے کار یا اپنے سے کمتر نہیں سمجھنا چاہیے کب کہاں کس کی ضرورت پڑ جائے ہم نہیں جانتے ۔