مولانا طارق جمیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں ایک دفعہ قحط آگیا تھا اور بارش نہیں ہو رہی تھی۔ لوگوں نے حضور ؑسے دعا کی عرض کی۔ بارش کی دعا کی نماز پڑھی اور اس کے بعد دھوپ اور زیادہ تیز ہوگئی، تو موسیٰؑ نے کہا کہ یا اللہ ہم نے بارش کی دعا کی تھی تو نے دھوپ بڑھا دی۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ جو لوگ کھڑے ہیں ان میں ایک آدمی چالیس سالوں سے میرا نافرمان ہے۔جب تک یہ کھڑا ہوا ہے میں بارش نہیں کروں گا۔حضرت موسیٰؑ نے اعلان کیا کہ وہ شخص وہاں سے چلا جائے۔وہ سوچنے لگا کہ اگر میں نکل گیا تو ذلیل ہو جاؤں گا اور اگر کھڑا رہا تو بارش نہیں ہوگی۔
پھر وہ اللہ کو دل میں پکارنے لگا لیکن یہ پکار اللہ کی محبت میں نہیں اور نہ ہی گناہوں کی ندامت میں تھی، یہ پکار عزت بچانے کے لئے تھی۔ یہ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ 40 سال تیری نافرمانی کی تو مجھے مہلت دیتا رہا مجھے چھپاتا رہا، مجھے معاف کر دے اگر تو نے بارش نہ کی مجھے یہاں سے نکلنا پڑھے گا اور میں ذلیل ہو جاؤں گا۔
اللہ نے توبہ کی کیفیت کو دیکھا کہ عزت بچانے کے لئے ہے ندامت یا اللہ کی محبت میں نہیں۔ 40 سال کی عمر سے نافرمانی کرنے والے کی ایسی پکار بھی اللہ نے سنی اور بارش برسا دی۔