دنیا ایسا انکوھا ترین قبیلہ جو سمندر کے اندر رہتا ہے، جان کر آپ پریشان ہوجائینگے۔

    مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ پاک نے یہ دنیا بنائی پھر اس میں جانداروں کو پیدا کیا تب جا کر یہ دنیا وجود میں آئی۔ لیکن سائنسدان اس تصور کو نہ مانتے ہوئے دنیاوی زندگی کو سائنس کی آنکھ سے پرکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آج سے کئی سال پہلے جب ہماری زمین میں ہر طرف زیادہ تر پانی ہی موجود تھا۔ اور زندگی صرف سمندر ہی میں تھی تب ایک جاندار سمندر میں سے نکلا اور اس نے پہلے مرتبہ زمین پر قدم رکھا۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ آج ہم اس جاندار کی ہی بدولت زمین پر چلنے پھرنے کے قابل بن سکے ہیں۔
    ماہرین کے مطابق اکیس سو عیسویں تک سمندر کی سطح 2 فٹ تک مزید بڑھ جائے گی جس کی بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ اسی طرح مزید جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ویسے ویسے ہی زمین سمندر کی گہرائیوں میں ڈوبتی چلی جائے گی، پھر شاید ہم انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے واپس پانی کے اندر جانا ہوگا۔

    انسا ن نے ہمیشہ سمندر کی گہرائی میں جا کر یہ ہی جاننے کوشش کی ہے کہ وہاں زندگی کیسی ہے۔ پانی کا بہت زیادہ پریشر ہوتا ہے جس کو ہم انسان تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن جیسے کہ ہمارا جسم 70 فیصد پانی سے ہی بنا ہوا ہے تو اگر پانی میں زیادہ دیر رہیں گے تو پھیپھڑوں میں گیس کمپریس ہو جائے گی جس کی وجہ سے بہت بری طرح سے کسی بھی انسان کا دم ٹوٹ سکتا ہے۔

    اور دوسری طرف ہمارے پھیپھڑے بھی اس قابل نہیں ہیں کہ ہم پانی سے آکسیجن حاصل کر سکیں۔ لیکن فلورو کاربن کی مدد سے ہمارےپھیپھڑے پانی میں آکسیجن کو الگ کر سکتے ہیں۔

    Advertisement

    مصنوعی گلپھڑوں کے ذریعے بھی انسان آسانی کے ساتھ پانی کے اندر سانس لے سکتے ہیں۔ یہ کرسٹل کی ہی طرح کام کرتے ہیں لیکن ان پر مکمل طور پر بھروسہ نہیں یا جا سکتا کیونکہ یہ مشین ہیں اور مشین میں تو مسئلے آتے ہی رہتے ہیں۔