عورتوں کو سمجھائیں یہ کام عصر اور مغرب کے درمیاں ہر گز نہ کریں ورنہ آپ کنگال ہو سکتے ہیں
اسلام آباد۔۔۔۔یہ کہا جاتا ہے کہ عصر سے مغرب کے درمیان گھر کی صفائی نہ کی جائے کیونکہ یہ بات بھی ثابت ہے۔ کہ عرب کی ایک بڑھیا گھر کی صفائی کرتی اور
پھر عصر اور مغرب کے درمیان کے کسی وقت جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بڑھیا کی گلی سے گزرتے تو وہ بڑھیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی۔
جس کی وجہ سے مسلم گھرانوں میں عصر سے مغرب کے درمیان صفائی کرنا اور کوڑا کرکٹ پھینکنا غیر مناسب اور برا سمجھا جاتا ہے۔ حضور پاک کا نام مبارک سننے یا پڑھنے کے ایک بعد ایک بار درود پاک پڑھنا لازم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ درود پڑھنے والے کو بہت سے انعامات اورفوائد سے نوازتے ہیں اور مؤمنین کے آپ ﷺ پر درود پڑھنے کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ بڑھاچڑھاکر اُن پررحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ امام نسائی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ
آپ ﷺایک دن تشریف لائےتو آپﷺ کے چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثارتھے، میں نے کہا: آج ہم آپ کے چہرہ پرخوشی کے آثارمحسوس کررہے ہیں ! تو آپﷺ نے فرمایا کہ: میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ: کیا آپ اس بات سے خوش نہیں کہ جب بھی کوئی شخص آپ پردرودبھیجے تومیں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گااورجب بھی کوئی شخص آپ پرسلامتی بھیجے تومیں دس سلامتی اس پرنازل کروں گا۔
(تفسیرقرطبی،ج:۱۴،ص:۲۳۷)”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
” (مشکاۃ)”حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس (مرتبہ) رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف کرے گا اور (تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا”۔ (مشکاۃ)” حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر اکثر درود پڑھنے والے ہیں۔” (جامع ترمذی)” حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔ ” (مشکاۃ)اس روایت کی تشریح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی مظاہر حق میں لکھتے ہیں:”اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو روضہ اقدس سے دور رہتے ہیں اور انہیں روضہ مقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا، چنانچہ ایسے لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قلیل یا کثیر تعداد میں سلام بھیجتے ہیں۔
تو فرشتے ان کا سلام بارگاہ نبوت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہیں۔ البتہ وہ حضرات جنہیں اللہ نے اپنے محبوب کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت سے نواز رکھا ہے۔ جب وہ بارگاہِ نبوت میں سلام پیش کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی؛ کیوں کہ روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کے سلام آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔ اس حدیث سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے ۔ اول یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیاتِ جسمانی حاصل ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں زندگی حاصل تھی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں بھی زندگی حاصل ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں جو سلام بھیجنے والے کے حق میں انتہائی سعادت و خوش بختی کی بات ہے۔ سوم یہ کہ جب فرشتے کسی امتی کا سلام بارگاہ نبوت میں پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سلام قبولیت کے درجہ کو پہنچ گیا ہے اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام بھیجے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، نیز ایک روایت میں مذکور ہے کہ ” جب فرشتے سلام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں تو سلام بھیجنے والے کا نام بھی لیتے ہیں “۔