ہاشم رضا جو کہ موٹیویشنل اسپیکر ہونے کے ساتھ انجیو بھی چلاتےتھے لیکن زندگی کے آخری ایام انھوں نے کیسے گزارے؟
ہاشم رضا جو کہ موٹیویشنل اسپیکر ہونے کے ساتھ انجیو بھی چلاتےتھے لیکن زندگی کے آخری ایام انھوں نے کیسے گزارے؟
ہاشم رضا ایک انسان تھے جو کہ موٹیویشنل اسپیکر ہونے کے ساتھ ساتھ این جیو بھی چلا رہے تھے ان میں رواں سال جنوری میں کینسر کی تشخیص ہوئی ۔
ا ن کا کہنا تھا کہ اس مرض کی تشخیص کے بعد انھوں نے ہمت نہیں ہاری تھی بلکہ ڈاکٹر سے بات چیت کر کے اس کا علاج شروع کروایا۔
ڈاکٹر سے بات کے بعد میں نے یہ سمجھا کہ کینسر انسان کو ختم کر دیتا ہے لیکن میں نے اس لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جیسے ہی پہلی کیمو ڈوز لگی
جس کے متعلق میرا خیال تھا کہ انجکشن ہوتا ہے لیکن وہ ڈرپ کی صورت میں لگی ۔ پہلی ڈوز کے بعد مجھے ساتھ دن تک ہوش ہی نہیں رہی کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے؟
ہاشم رضا کاکہنا تھا کہ بیماری اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کینسر ایک وقتی مرض ہے اگر آپ اپنے دماغ میں ہمت نہیں رکھیں گے
تو پھر آپ کی قوت معدافت بھی بیماری کے خلاف نہیں لڑے گی۔ اس لئے ایسے میں ہمت رکھیں اور اس مرض سے لڑائی کے لئے تیار رہیں۔
ہاشم رضا کے خیال میں عمر خواہ کتنی بھی ہو زندگی بڑی ہونی چاہیے، کل کو اگر مجھے کچھ ہو جاتا ہے تو کوئی بھی کینسر سے مایوس شخص میرا پروفائل دیکھے
اور اس سے اس شخص کو زندہ رہنے کی خواہش جاگے گی تو میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہو گی کہ میری اس بیماری سے لڑائی کو دیکھ کر کسی نے تو کچھ فائدہ حاصل کیا۔
ہاشم رضا نے مزید کہا کہ میں نے زندگی میں بہت کام کیے ہیں موٹیویشنل اسپیکر ہونے کے ساتھ آن لائن بک سٹور بھی تھا اس سے پہلے میں نے بکرا عید پر بکرے بھی بیچے ہیں۔
زندگی میں کچھ بھی پلیٹ میں سجا کر نہیں ملتا ۔ دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ تو میں جہاں سےعلاج کروا رہا ہوں یہ لاہور کا سب سے بہتر ادارہ ہے ۔ جب کوئی ملنے آتا ہے تو مریض کو ڈھارس بندھ جاتی ہے ۔ اس لئے مریض کے ساتھ ٹائم گزاریں۔ تاکہ وہ اس مایوسی سے باہر نکلے۔
ہاشم رضا آٹھ روز قبل اس جہان فانی کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ ان کے جانے سے کئی آنکھیں پرنم ہیں اور کئی دل رو رہے ہیں۔ ان کے بھائی کا کہنا ہے
کہ اپنی زندگی کی آخری صبح وہ بہت خوش تھے انھوں نے ایک روز پہلے ہی کسی کو کاروبار شروع کروایا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔